ہمیں کورونا نہیں ہو سکتا!



زندگی پھر سے لوٹ آئی۔ رونقیں بحال ہو گئیں۔ روشنیاں جگمگا اٹھیں۔ خوشیاں در آئیں۔ چہرے کھلکھلا اٹھے۔ زندگی نے موت کو شکست دے دی۔ یہ سب حوصلے سے ہوا۔ ہمت سے ہوا۔ عزم اور یقین کے ساتھ ممکن ہوا۔ چین کے صوبے ووہان کو 76 روز کے لاک ڈاون کے بعد مکمل طور پر کھول دیا گیا۔ زندگی کی گاڑی ایک نئے عزم کے ساتھ چل پڑی۔ بازاروں تفریح گاہوں شاہ راہوں پر پھر سے انسانوں کا ہجوم ہے جہاں کچھ دن پہلے ویرانی تھی، آج چہل پہل ہے۔ چینیوں نے کورونا کو شکست دے کر ثابت کر دیا کہ کچھ بھی ناممکن نہیں۔

چند ماہ پہلے کی بات ہے، جب دسمبر کے آخری دنوں میں چین کے شہر ووہان میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا اور 12 جنوری کو کورونا کے نتیجے میں پہلی انسانی ہلاکت کے بعد اس وائرس کے پھیلاؤ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں۔ پھر یہ سلسلہ طول پکڑتا گیا۔ 23 جنوری کو ووہان کو مکمل لاک ڈاون کر دیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وبا نے ہزاروں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں اموات کا سلسلہ شروع ہو گیا، مگر اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک نے اس وبا کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا۔ یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ہر طرح کی صورت حال سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکا میں چین سے صرف ایک مریض آیا ہے۔ صورت حال مکمل کنٹرول میں ہے۔

اور آج حالت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مریض امریکا میں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے زائد اموات ہو رہی ہیں۔ امریکی صدر بدحواسی میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے، کہ اس نے کورونا کے خطرے سے بروقت آگاہ نہیں کیا۔

اسی طرح چین میں وبا کے پھوٹنے کے بعد اٹلی، ایران سمیت بہت سے ممالک نے، چین سے دھڑا دھڑ اپنے لوگوں کو واپس بلا کر یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اپنے شہری محفوظ کر لیے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر بیٹھے کہ شہری محفوظ کرتے کرتے انھوں نے اپنے شہر غیر محفوظ کر لیے۔ بلکہ اپنے ملک غیر محفوظ کر لیے۔ اور پھر یہ وبا تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئی۔

آج کرہ ارض پر کوئی ملک ایسا نہیں جو اس موذی وبا سے محفوظ ہو۔ امریکا، اٹلی سمیت بہت سے ممالک ممالک کورونا کے ہاتھوں بے بس ہو چکے ہیں۔ سب چین کی طرف دیکھ رہے ہیں اس سے مدد مانگ رہے ہیں۔

آج جب پوری دنیا میں کورونا کی خوفناک صورت حال کو سامنے رکھیں، تو وہ دن یاد آ جاتے ہیں، جب چین اکیلا اس وبا سے لڑ رہا تھا اور بہت سے ممالک اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ بہت سے لوگ چین کو غیر مذہب قرار دے کر کہہ رہے تھے، کیونکہ چینی حرام جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں حرام خوری کی وجہ سے اس وائرس کی زد پر ہیں۔ بعضوں نے اسے چینیوں پر خدا کا عذاب قرار دیا اور پھر اسی طرح جب ایران سے آنے والے زائرین کے نتیجے میں پاکستان میں کورونا سے متاثرہ لوگ سامنے آئے تو کچھ عاقبت نا اندیش لوگوں نے اسے مخصوص مکتب فکر سے جوڑنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں جب رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع کے بعد بہت سے لوگوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تو کچھ اور لوگ بول اٹھے۔

الغرض اسلام کی حقانیت سے نابلد لوگوں نے زمینی حقائق اور وباوں کی حقیقت کو نظر انداز کر کے اپنا اپنا چورن بیچنا شروع کر دیا۔ یعنی پہلے یہ خدا کا عذاب تھا پھر یہ آزمائش بن گیا۔ حالانکہ تواریخ عالم اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے، کہ اس طرح کی وبائیں جب آتی ہیں تو وہ کسی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی، ملحد اور کسی بدھ مت کا لحاظ نہیں کرتیں اور نا ہی کسی شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، کیتھولک، پروٹسٹنٹ، برہمن، کھتری، ویش، شودر کے درمیان فرق کرتی ہیں۔ ڈوبنے والی کشتی میں جتنے بھی مذاہب کے لوگ شامل ہوں مگر بچے گا وہی جو تیرنا جانتا ہو گا، اور حواس پر قابو پا کر پانی کی تند و تیز لہروں کا مقابلہ کرے گا۔

دین اسلام کو ایک مکمل ضابطہء حیات اس لیے تو کہا گیا ہے کہ اس میں زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے رہنمائی کی گئی ہے۔ آقا حضورﷺ نے 14 سو سال قبل فرمایا تھا کہ اس طرح کی کوئی وبا کسی شہر میں پھوٹ پڑے تو اس شہر میں موجود کوئی شخص اس شہر یا علاقے سے باہر نہ جائے اور نا ہی باہر سے کوئی شخص اس شہر یا علاقے میں داخل ہو۔ یعنی مکمل لاک ڈاون کے ذریعے ایس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پھر صفائی کو نصف ایمان قرار دے کر ہمیشہ صاف ستھرا اور پاکیزہ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آج جب پوری دنیا کے ڈاکٹر کورونا سے لڑنے کے لیے بار بار ہاتھ دھونے کو ضروری قرار دے رہے ہیں تو دین اسلام تو کہیں بہت پہلے ہمہ وقت باوضو رہنے کی تلقین کرتا ہے۔

یقیناً ہمیں کورونا نہیں ہوسکتا۔ ہم بھی کورونا کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہم بھی موت کو مار سکتے ہیں۔ ہم بھی زندگی جی سکتے ہیں۔ مگر اس بنیاد پر کورونا کا مقابلہ نہیں کر سکتے کہ ہم کس مذہب یا کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہاں مگر اس بنیاد پر کورونا کا مقابلہ کر سکتے ہیں کہ ہم اسلام کی واضح تعلیمات کے مطابق خود کو زیادہ سے زیادہ گھروں تک محدود رکھیں۔ یہ نا صرف ہمارے لیے ضروری ہے بلکہ ان سب کی زندگیوں کے لیے بھی ضروری ہے جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ہمیں کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت سے مکمل تعاون کرنا ہو گا۔ حکومت شہری کے تعاون کے بغیر اکیلے اس وبا سے نہیں لڑ سکتی۔ ہمیں ہمت حوصلے اور بھرپور جذبے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہر شخص کو ایک سپاہی کی طرح اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

یقیناً پوری قوم کے لیے یہ انتہائی مشکل کی گھڑی ہے۔ مگر یاد رکھنا ہوگا کہ پوری دنیا آج ایسے ہی حالات سے دوچار ہے۔ ہمیں جیت کے عزم اور یقین کے ساتھ صورت حال کا مقابلہ کرنا ہو گا اور وہ دن دور نہیں جب یہ دن دور ہو جائیں گے۔ ویرانیاں دور ہو جائیں گی۔ وحشتیں باقی نہیں رہیں گی۔ تنہائیاں دور ہو جائیں گی۔ رونقیں لوٹ آئیں گی۔ خوشیوں کا بسیرا ہو گا۔ چہرے کھل اٹھیں گے۔ سب مل بیٹھیں گے۔ ڈیرے آباد ہو جائیں گے۔ گلیوں میں چہل پہل ہو گی۔ شہر کھل جائیں، دل مل جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments