جہانگیر ترین کی قربانی۔ کیا عمران خان بچ پائیں گے؟



اپنی تمام تر طلسماتی شخصیت کے باوجود 2011 ء سے قبل عمران خان سیاست کے کار زار میں فٹ پاتھ پر پیدل جوتے چٹخا رہے تھے۔ جس جدو جہد کا انہیں بہت زعم ہے کہ ان نے سترہ سال کی لازوال جدو جہد کی بنیاد پر پاکستان میں اقتدار حاصل کیا اگر دیکھا جائے تو اپریل 1996 ء میں لاہور میں قائم کی گئی تحریک انصا ف 2011 تک پاکستان کی سیاست میں کوئی با معنی یا قابل ذکر وجود نہیں رکھتی تھی۔ مولانا فضل الرحمان عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر قرار دیتے تھے۔

2002 ء میں عمران خان ممبر اسمبلی بھی بنے اور بعد ازاں مشرف ان جیسے آدمی پر مہربان بھی ہونا چاہتے تھے۔ لیکن عمران خان کی سوچ اور مزاج کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب مینار پاکستان میں تحریک انصاف نے عوامی قوت کا اپنا پہلا مظاہرہ کیا تھا۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ہزاروں لوگوں نے مجتمع ہو کر سیاسی قوتوں کو پہلی بار یہ پیغام دیا تھا کہ، نہیں! اب تحریک انصاف ایک قوت ہے۔ اور تابناک مستقبل کی خواہاں ہے۔

اس وقت تک پاکستان سے کچھ معروف شخصیات بھی پاکستان تحریک کا حصہ بن چکی تھیں لیکن اس کے باوجود عمران خان کو ان گلیوں سے شناسائی نہیں تھی کہ جن سے گزر کر پاکستان میں اقتدار کی منزل حاصل کی جا سکتی تھی۔ انقلابی اور جذباتی لوگوں کی ایک تعداد نعرے لگا کر جلسوں میں خوب رونق لگ سکتی تھی لیکن پاکستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی اور مضبوط سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں اقتدار تک پہنچنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کو اس وقت قوت ملی جب پنجاب سے جہانگیر خان ترین کی قیادت میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شمولیت کی۔

جہانگیر ترین نے پارٹی میں شامل ہونے کے بعد تن من دھن پارٹی کے لیے وقف کیا۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پارٹی کو منظم کرنے اور پارٹی کو اقتدار کے راستے پر ڈھالنے کے لیے وہ تمام ذرائع اختیار کیے جو ضروری تھے۔ لیکن بدقسمتی سے 2017 ء میں عمران خان کا مستقبل بچانے کے لیے جہانگیر ترین کو تاحیات ناہل قرار دے کر ان سے پہلی قربانی لی گئی۔ میاں نواز شریف کے مقابلے میں تحریک انصاف کے دوسرے بڑے اور با اثر ترین آدمی کو نا اہل قرار دے کر احتساب کے نظام کو شفاف دکھلانے کی کوشش کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک پاکستان میں احتساب کس قدر شفاف ہو رہا ہے۔

جہانگیر ترین کو اگر نا اہل نہ قرار دیا جاتا تو عمران خان پھنس رہے تھے لیکن کیا بات ہے جمائمہ کی وفاداری کی کہ انہوں نے تمام قانونی کاغذات بھیج کر عمران خان کو بچا لیا۔ اور جہانگیر ترین اپنی تمام منی ٹرائل کے ثبوت دے کر بھی اپنے مستقبل کو نہ بچا سکے۔ جہانگیر خان کی اس پہلی قربانی نے عمران خان کے اقتدار کے راستے میں رکاوٹوں کو دور کر دیا۔ جہانگیر ترین کانٹے چن چن کر اپنی جھولی میں ڈال کر عمران خان کا راستہ صاف کرتے رہے۔

2018 ء میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور ڈیڑھ سال کے بعد بری حکومت کی ایک مثال بن گئی۔ لوگوں سے جو وعدے وعید کر کے اقتدار حاصل کیا گیا تھا وہ تو خیر کیاپورے ہوتے۔ الٹا ملک بد حالی اور تاریخی معاشی بحران کا شکار ہو گیا۔ اپنی خراب کارکردگی کو چھپانے کے لیے شوگر سکینڈل کو جس طریقے سے اچھالا گیا۔ تاریخ میں اس واردات کی مثال نہیں ملتی۔ حکومت خود چینی پر سبسڈی دے کر پھر اس کی تحقیقات کرواتی ہے۔ اور اس کا ملبہ جہانگیر ترین پر ڈال کر یہ باور کروانے کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان شفافیت کے اتنے سخت قائل ہیں کہ اپنوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔

سبسڈی سے متعدد لوگ مستفید ہوئے۔ لیکن بدنامی ساری جہانگیر ترین کے کھاتے میں ڈالی گئی۔ اس طرح جہانگیر خان ترین کو دوسری بار قربانی کا بکرا بنا کر تحریک انصاف نے شفاف احتساب کی چھتری تلے چھپنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ اس خیرات سے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ مستفید ہونے والے خسرو بختیار بدستور کابینہ کا حصہ ہیں۔ جہانگیر ترین کے پاس نہ تو کوئی پارٹی کا عہدہ ہے اور نہ ہی حکومت کا۔ لیکن حکومت کی ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھیں کہ فوری طور پر ٹی وی پر خبر چلا دی گئی کہ جہانگیر خان ترین سے عہدہ واپس لے لیا گیا۔ جس پر جہانگیر خان ترین کو میڈیا پر آکر کہنا پڑا کہ میرے پاس تو کوئی عہدہ تھا ہی نہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شوگر مافیا بہت با اثر ہے اور حکومتیں پر ان کا بڑا عمل دخل رہتا ہے۔ اورجہانگیر ترین نے بھی اگر کوئی غلطی کی ہے تو انھیں ضرور سزاء ملنی چاہیے لیکن حکومت اس طرح کب تک لوگوں کو گمراہ کرتی رہے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر شوگر مافیا کو نوازا گیا تو کوئی تو ہو گا جس نے یہ نوازش کی۔ کوئی تو ہو گا جس کے فیصلے سے یہ نوازشات کی گئیں۔ کوئی تو ہو گا جس نے اس نواش کے لیے کاغذات پر دستخط کیے ہوں گے۔ کیا ان کو کوئی پوچھے گا؟ اگر ان سے پوچھ گچھ ہوئی تو کیا عمران خان بچ پائیں گے؟ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے برے وقت کے لیے کچھ ساتھیوں کو ضرور اپنے ساتھ رہنے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ کل جب ان پر مشکل وقت آئے (جو کہ بظاہر بہت جلد آنے والا ہے ) تو ان سے ہمدردی کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments