کرونا کی وبا دوا، دعا اور پیشوا کا امتحان



انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے وائرس نے عالمی وبا بن کر ریاستوں، حکومتوں، مذاہب، عقائد اور سائنس سب ہی کو امتحان میں ڈال دیا۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک اس کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے اور مشرق سے مغرب تک سارے معبدوں کے دروازے بند اور گھنٹے خاموش ہوگئے۔ نیویارک سے سڈنی تک اسٹاک ایکسچینج جمود کا شکار ہوئی۔ صرف ہسپتال کھلے ہیں، چہرے کے ماسک کی اور دستانے مانگے جارہے ہیں اورہر جگہ الکحل والے سینیٹائزر کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ زمین و آسمان کہ قلابیں ملاتی جو طول و عرض پر پر سنائی دیتی تھی وہ آوازیں خاموش ہیں اب صرف ڈاکٹروں کی ًاحتیاط، احتیاط اور احتیاطً کی سرگوشیاں اور شہر کے کوتوال کا حکم “وڑ جانی دیا گھر بیہہ” ہر جگہ سنائی دیتا ہے۔

یہ افتاد کہاں کیسے پہنچی یہ ہر ملک کی اپنی کہانی ہے۔ کہیں جہالت، کہیں غیر سنجیدگی اس کا موجب بنی کہیں نا اہلی اور کہیں تکبر اور مستی وجہ بن گئی۔ جب دنیا میں یہ وبا قہر بن کر ٹوٹ رہی تھی تو ہم سپر لیگ کا ہلہ گلہ بن کر لوٹنے والی کرکٹ کا جشن منا رہے تھے۔ جب تک دوسرے ملکوں سے آنے والے کھلاڑی غیر محفوظ ہوکر جان بچا کر بھاگے نہیں ہم ہوش میں نہ آسکے۔

جب تک کعبہ کے دروازے بند نہیں کر دیے گئے پاکستان سے جہاز بھر بھر کر لوگ عمرہ پر جاتے رہے اور واپسی پر ائر پورٹ پر چھ ہزار کی رشوت پر باہر نکلنے کی چھوٹ تو مل گئی مگر صرف مردان کی ایک ہی یونین کونسل میں تین لوگوں کا عمرہ کا ثواب پورے علاقے میں وبال جان بن گیا۔ یہ تو مشت از خراروے ہے ایسی مثالیں ہزاروں میں ہیں۔ نتائج اب گجرات، گجرانوالہ، سیالکوٹ اور راولپنڈی جیسے شہروں سے آرہے ہیں جو آنے والے دنوں میں زیادہ خوفناک ہو سکتے ہیں۔

جب تک ایران کی حکومت نے دھکے دے کر نہیں نکالا زائرین کے قافلے رکنے کو نہیں آئے۔ اپنی حکومت مصلحت کا شکار ہو تو کسی اور کو کیا فکر پڑی ہے۔ مذہبی علماء کہلانے والے جہالت کی تعلیم دیں تو سیاسی راہنما بے بس ہوجاتے ہیں وگرنہ پورے ملک میں اس وبا کے خلاف بہترین صلاحیت اور کا مظاہرہ کرنے والے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اپنا بہنوئی اس وبا کا شکار نہ ہوتا۔

خیبر پختون خواہ میں اس وبا سے شرح اموات سمجھ سے بالا تر ہیں۔ سندھ میں جب 20 افراد اس وبا میں جان کی بازی ہار چکے تو کل مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی تھی جبکہ خیبر پختونخواہ میں ابھی مریضوں کی تعداد پا نچ سو تھی مگر 20 لوگ وفات پا چکے تھے۔ اس بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک سے آنے والے ک کرونا وائرس کے متاثرین کے علاوہ لاہور کے تبلیغی اجتماع میں شرکت کرکے آنے والے کئی بے خبر لوگ اس ناگہانی آفت کا شکار ہورہے ہیں۔ سوات کے بارے میں ایک دوست کا کہنا ہے کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ 46 لوگوں کا ٹسٹ مثبت آیا ہے مگر سات لوگ اس وبا میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں جو شرح کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔

صرف پاکستان میں ہی نہیں ہندوستان میں اس سے بڑے واقعات دیکھنے کو ملے۔ سوا ارب کی آبادی والے ملک میں بغیر پیشگی اعلان کے لاک ڈاون سے انسانی المیے کی ایسی مثالیں دیکھنے اور سننے کو ملیں کہ جمہوریت اور روایات کا علم سرنگوں ہوگیا۔ کوئی راستے میں دم توڑ گیا تو کسی مرنے والے کی بیٹیوں کو خود باپ کی چتا جلانے پر مجبور کیا۔ چاند پر راکٹ بھیجنے کے دعویدار ملک میں لوگوں کو دینے کے لئے ماسک بھی نہیں ہے اور نہ ہی کھانے کو دال چپاتی۔ آنے والے دنوں میں سلامتی کی رکنیت لے کر دنیا کی سرداری کے خواہشمند ملک سے انسانی المیے کی داستانیں سننے کو ملیں گی۔

دنیا میں اکیلے حکمرانی کا دعویدار امریکہ اس وقت وبا کی زد میں ہے۔ دنیا کا معاشی و اقتصادی دارالحکومت نیویارک میں مرنے والوں کو دفنانے کا انتظام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کھربوں ڈالر کا ہتھیار بنانے، خریدنے اور بیچنے والے ملک میں مرنے والوں کی سانس بحال کرنے کے لئے وینٹی لیٹر کم پڑ گئے۔ امریکی صدر اور کانگریس منہ چھپائے پھر رہے ہیں کہ اس ملک میں ایسی وبا سے نمٹنے کے لئے انتظامات کیوں موجود نہیں تھے۔

مشرق سے مغرب تک کئی صدیوں تک اپنی حکمرانی کا سورج روشن رکھنے والے ولایت کا ولی عہد اور وزیر اعظم قرنطینہ پہچ چکے ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہیں اور دن رات جاگنے والے شہروں میں ہو کا عالم ہے۔ یورپی اتحاد میں شامل ہونے اور الگ ہونے کی سیاست میں دس سال ضائع کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ بڑی عمارتیں، عالیشان محلات اور زیبائش و آرائش کا نام ترقی نہیں بلکہ شہریوں کی دیکھ بال کی صلاحیت ہی کسی فلاحی ریاست کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے مقتدر پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور تاج برطانیہ رعایا کی خیریت کے لئے صرف دعا گو ہے۔

اس وبا نے سائنس کی انسانی فلاح و بہبود کے لئے تحقیق اور جستجو پر چھائے جمود کا بھی پردہ چاک کیا۔ آج بھی بات براعظم امریکہ کے ملک پیرو کے پشتنی پاشندوں کی بخار کے علاج کے لئے صدیوں سے آزمودہ روایتی جڑی بوٹی کنکونا سے سترویں صدی میں نکلی کڑوی دوا کلوروکونین پر ہی رکی ہوئی ہے۔ یورپ سے بائبل اور بارود لے جاکر امریکہ پر قبضہ کرنے والوں کے ہاتھوں لاکھوں مقامی باشندوں کے قتل عام اوران کے علم و حکمت کی تباہی میں بچ جانے والی اس دوا نے دنیا کو ملیریا جیسے قہر سے نجات دلایا تھا۔

آج سائنسی ترقی و کمال کے دور میں بھی اسی دوا کو ہی پھر سے بطور امرت استعمال کرنے کی تسلی دی جارہی ہے۔ تو کیا سترویں صدی سے آج تک دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں ں سے تباہی سے ہمکنار کرنے، چاند تاروں پر کمند ڈلنے اور سمندر کی تہہ سے دولت کے انبار نکالنے والی سائنس کے دامن میں انسانی المیہ سے نمٹنے کے لئے آج بھی امریکہ کے پشتنی باشندوں کی روایتی حکمت کے سوا کچھ نہیں؟

چرند، پرند، کیڑے مکوڑے اور حشرات کی اہمیت سے تو ہر شخص واقف ہے کہ اگر یہ نہ رہے تو کرہ ارض پر باقی زندگی بھی اختتام کو پہنچ جائے گی۔ روئے زمین خوراک کی زنجیر کی ایک بھی کڑی ٹوٹ جائے تو کرہ ارض کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ کسی ایک جاندار کے نہ ہونے سے دیگر کی بقاء کو خطرہ پیدا ہونے کی بہت ساری مثالیں بھی موجود ہیں۔ کرونا کی وبا نے ایک اور بات ثابت کردی کہ انسان ہی واحد جانور ہے جس کے کرہ ارض پر موجود نہ ہونے سے نہ صرف خوراک کی زنجیر کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ پانی، ہوا اور مٹی میں الودگی کم ہونے سے دوسرے جانداروں اور پودوں کی بقاء اور نشو نما زیادہ بہتر ہوسکتی ہے۔

کرونا وائرس سے پھیلی وبا نے سیاسی پیشوائی کی مردانہ خوش فہمی کا بھی خاتمہ کردیا۔ فن لینڈ کی خاتون وزیر اعظم سنا مارن اورنیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا ارڈن نے تو اپنی لیڈر شپ کا لوہا پہلے ہی منوا رکھا تھا۔ ان خواتین کی زیر قیادت ممالک میں کرونا کی وبا سے ایسی مشکلات درپیش نہیں جو دوسرے ملکوں کو ہیں۔

امریکہ جو آج سب سے زیادہ متاثر ملک ہے وہاں ایک طرف ریاست مشی گن کی خاتون گورنر گریچن وائٹمر نے اس وبا پر قابو پانے کے بارے میں غیر مبہم پالیسی پر صدر ٹرمپ کی ناک میں دم کر رکھا ہے تو دوسری طرف شہر سان فرنسسکو کی مئیر محترمہ لنڈن بریڈ نے امریکہ کے تمام شہروں کی نسبت بہتر انتظام کے ذریعے کرونا کو قابو میں رکھ کر ٹرمپ اور دیگر پیشواؤں کی مردانگی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

کرونا وائرس نے صاف بتا دیا کہ اونچی فصیلیں، پہرے دار، اسلحہ، گولہ بارود اب تحفظ دینے سے قاصر ہیں۔ نیوٹران، پروٹان، الیکٹران کو تحلیل کرکے ایٹم بم بنا کر لمحات میں دنیا کو بہ آسانی تباہی سے دوچار تو کیا جا سکتا ہے مگر ایک وائرس کو مارنا دنیا کی سب سے بڑی آزمائش بن چکی ہے۔ کرونا کے وائرس کی وبا کا سبق یہی ہے کہ دنیا کو آگے آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لئے نہ صرف دعا، دوا اور پیشوائی میں تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ تحفظ کے معنی بھی بدل کر ہی دنیا کو محفوظ بنا جاسکتا ہے۔ اب اکیلا کوئی محفوظ نہیں ہے اس لئے دفاع مل کر کرنا ہوگا اور تحفظ بھی سب کا کرنا ہوگا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments