کرونا وائرس اور ہمارے رویے



کرونا وائرس کو اللّٰہ کا عذاب بھی نہیں کہہ سکتے ہیں ہو سکتا ہے اس میں کسی خیر کا کوئی پہلو پنہاں ہوں۔ اسے رب کا اپنے بندوں پر امتحان بھی نہیں کہہ سکتے ہیں، امتحان اور آزمائش خدا اپنے نیک بندوں پر ڈالتا ہے، منافع خوروں، سود خور اور رشوت خوروں پر اللّٰہ کا امتحان کیسا؟ اس کو کافر پر اللّٰہ کا عذاب بھی نہیں کہہ سکتے ہیں پانج وقت نماز کے پابند اور متقی لوگ بھی کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسے چین اور امریکہ کا دنیا پر بیالوجیکل وار بھی نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ امریکہ اور چین کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

قبل از وقت اس وبا پر تبصرے کرنا بیکار ہے نہ یہ کسی کافر کی چال ہے نہ کسی طاقتور نے کمزور پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے سازش کی ہے نہ یہ وبا چمگادڑ، مینڈک، سانپ یا سور کا گوشت کھانے سے دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اتنا کہہ سکتے ہیں یہ کسی ارتقا کا شاخسانہ ضرور ہے اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ اللّٰہ جانے اس میں کیا حکمت ہے وقت آنے پر سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔

کرونا وائرس کی تباہ کاریاں، انسانی رویے اور حکومتوں کے ترجیحات اور پالیسوں پر ہم بات کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں بچا ہے جو کرونا وائرس سے متاثر نہ ہوں، اب تک کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سپر پاور امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ پاکستان میں بھی کرونا وائرس کے کیسسز میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے جو بہت تشویشناک بات ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے گلگت بلتستان سے اچھی خبریں آرہی ہے کرونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اب تک 96 مریض مکمل صحتیاب ہو کر گھر چلے گئے ہیں اور مریضوں کی تعداد میں کمی آکر 144 رہ گئی ہے دعا ہے کہ مزید مریضوں کی کرونا رپورٹ نیگیٹو آکر سارے صحتیاب ہو کر گھر چلے جائیں۔

مگر بدقسمتی یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی حکومت کو کوسنا پڑتا ہے اس وقت گلگت بلتستان میں صرف ایک کرونا ٹیسٹنگ لیبارٹری موجود ہونے کی وجہ سے رپورٹ حاصل کرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے جس کی وجہ سے مریضوں کی بروقت علاج ممکن نہیں ہوتی ہے۔ جہاں مریض پریشان ہیں وہاں ڈاکٹرز بھی اپنے جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض کو زائرین کی سکریننگ پر لگا دیا تھا مگر حفاظتی کٹ فراہم نہ کرنے کی وجہ سے وہ دوسرے دن ہی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

سوشل میڈیا پر ایک خاتون نرس کی پوسٹ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے، اتنے ظالم لوگ اور فرسودہ نظام ہوسکا ہے؟ بچاری لکھتی ہے ؛ میری ڈیوٹی آئی سی یو میں کرونا وائرس کے سیریس مریضوں کے ساتھ لگا دی گئی ہے، آج تیسرا دن ہے گھر نہیں گئی ہوں، چاہتے ہوئے بھی گھر نہیں جاسکتی، مجھے مکمل یقین ہے جو حفاظتی کٹ مجھے مل چکی ہے یہ میری حفاظت کے لیے ناکافی ہے، مجھے شک نہیں بالکل مکمل یقین ہے کہ میں کرونا وائرس کا شکار ہو چکی ہوں، ہسپتال میں ٹیسٹ کروانے کا کوئی سہولت موجود نہیں ہے، مجھے گھر جانے کے بجائے کسی قرنطینہ سنٹر میں پناہ لینی چاہیے۔ اس حالت میں اگر گھر چلی گئی تو میرا تین سالہ بچہ، میاں اور گھر والے سب کرونا وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اس جیسے کتنے ڈاکٹرز، نرسسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ہوں گے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ المیہ پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ بھی ہے ان کو بھی اللّٰہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

دوسری جانب پولیس بھی شہریوں کے ساتھ نارواں سلوک کرتی دکھائی دیتی ہے، متعدد بار فوٹیجز شوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی ہے جہاں پولیس شہریوں پر تشدد اور مرغا بنا کر شہریوں کی تذلیل کرتی ہے۔ ریاستی اداروں کا غیر پیشہ ورانہ طرزِ عمل دیکھ کر دکھ اور حیرانی ہوتی ہے آخر کیوں ہمارے معاملات بہتر نہیں ہوتے ہیں؟ ہیلتھ کا نظام وہ مفلوج، تعلیم کا بیڑھ غرق ہے، دیگر ادارے اقربا پروری اور کرپشن کی وجہ سے کنگال ہیں اس نظام کو درست کرنے شاید فرشتے آسمان سے اترے۔

ہم کتنے بدبخت لوگ ہیں مسلمان ہو کر بھی کفر کے کام ہم سے سرزد ہوتے ہیں، کرونا وائرس سے پوری دنیا پریشان ہے ہم کسی نہ کسی طریقے سے خود کو فائدہ پہنچانے کے چکر میں ہیں، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ سماجی میل ملاپ اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں مگر ہم بلاوجہ روڈ پر جا کر پولیس کے ہاتھوں مرغا بن جاتے ہیں، دوسرے ملکوں میں لوگ غریبوں کی مدد کرتے ہیں مگر اپنی تشہیر نہیں کرتے ہیں مگر ہم پانچ کلو کا آٹا تھما کر بھی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ یہاں بیوپاریوں پر تو خدا ہی رحم کرے اس مشکل وقت میں بھی ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments