برنی سینڈرز اور جیریمی کوربین ایک نہ ایک دن ضرور جیتیں گے


کرہ ارض پر اپنی بقا کی جنگ لڑنے والی تمام مخلوقات میں انسان وہ واحد مخلوق ہے جس نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔ کبھی جدوجہد ترک نہیں کی۔ اسی لئے انسان اپنی سخت جانی کی وجہ سے اب تک معدومی سے بچا ہوا ہے۔

نسل انسانی ارتقا کی منازل طے کرتے ہوئے قریبا پچیس لاکھ برس کی مسافت طے کر چکی ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد یہ انسان نما مخلوق سے بندہ بشر کے درجہ پر فایز ہوا ہے۔ اب اس بندہ بشر کی معلوم تاریخ میں صرف اور صرف ایک ہی وصف نے اسے دوسری مخلوقات سے متمیز کیا ہے۔ اور وہ ہے حوصلہ نا ہارنے کی صلاحیت اور عزم۔

اس بندہ بشر نامی مخلوق نے جہاں ایک طرف تو کرہ ارض کے بنیادی ذرے ایٹم کا سینہ چیر کر اس میں جھانک کر دیکھ لیا ہے اور دوسری طرف کشش ثقل کا گھیرا توڑ کر کائنات کی وسعتوں کو کھنگال ڈالا ہے۔ انسانی اور حیوانی جسم کے بنیادی جینیاتی کوڈ کا نقشہ دنیا کے سامنے آشکار کردیا ہے۔ کرہ ارض پر بپا ہونے والے تمام حوادث کا سامنا کرچکا ہے۔

انسان میں ایک اور بنیادی وصف تحفط خویش بھی پایا جاتا ہے۔ یہ صفت یا جبلت بندہ بشر کے ساتھ ساتھ دوسری تمام مخلوقات میں بھی موجود ہے۔ لیکن انسان نے اس جبلت کو انفرادی اور اجتماعی ہر دو زاویوں سے استعمال کیا ہے۔ ہزاروں سال کی معلوم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بندہ بشر نے اجتماعیت کے تناظر میں تمام بنی نوع انسان کے تحفظ کا بندوبست کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور انفرادی، شخصی اور گروہی مفادات حاصل کرنے کے لئے تمام بنی نوع انسان کو غلام بنا کر رکھنے کے لئے بھی ریشہ دوانیاں کیں ہیں۔

اس حکایت کو چاہے تمثیلی سمجھیے یا مقدس صحائف میں درج شدہ حقیقت کہ فراعنہ مصر نے جب نسلی تعصب برتتے ہوئے بنی اسرائیل کے انسانوں کو اپنا غلام سمجھا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تب موسی علیہ السلام نامی ایک بندہ بشر نے وقت کے فرعونوں کو للکارا تھا۔

بنی اسرائیل کی کنعان کی جانب ہجرت چالیس برس کی مسافت پر محیط تھی۔ لق و دق، بے آب و گیاہ اور جلتے بلتے صحرا میں ”من“ کو مساوی تقسیم کرنے کا کلیہ طے کیا گیا تھا۔ لیکن اس طرز کی مساوی تقسیم کا یہ کلیہ بندہ بشر نے اس ہجرت کے دوران دریافت نہیں کیا تھا۔ اجتماعی تحفظ خویش کے ڈانڈے اس بھی کہیں پہلے ہزاروں برس کی تاریخ میں جا ملتے ہیں۔ اور یہ تاریخ آج بھی بحر اوقیانوس کے ساحلی جنگلات سے لے کر بحر الکاہل میں موجود جزائر کے قبائلی معاشروں میں بکھری پڑی ہے۔

بندہ بشر نے اجتماعی طرززندگی ہزاروں برس تک بسر کی ہے۔ لیکن کرہ ارض پر زرعی معاشرے کے قیام کے بعد کیے جانے والے سیاسی اور سماجی بندوبست ہوس زر کو مہمیز کرتے رہے۔ انسانوں کو جبر واستبداد کا نشانہ بناتے رہے۔ غلامی کو فروغ دیتے رہے۔ لسانی، مذہبی، نسلی اور صنفی امتیاز برتتے رہے۔

اس کرہ ارض پر لاکھوں کروڑوں سال سے کچھ دوسری ایسی حیاتیاتی انواع بھی نمو پاتی رہیں جنہوں نے انسان کو ایزائیں پہنچا کر نڈھال کر ڈالا۔ لیکن اپنی سخت جانی کے سبب بندہ بشر ان سے نبرد آزما ہوتا رہا اور اپنی نسل کو معدومی سے بچاتا رہا۔ بندہ بشر نے حوصلہ نہیں ہارا۔ خاصی تعداد میں ان انواع پر قابو پا لیا۔ لیکن انسان کی اس قابلیت کا فائدہ انفرادی تحفظ خویش کے مرض میں مبتلا پست ذہنیت کے افراد اور گروہوں نے غلط اٹھایا۔ اور کرہ ارض پرایسے سیاسی، سماجی اور معاشرتی بندوبست کرنے میں لگے رہے جس میں انسانی مساوات پر ندراد ہے۔ اور طبقاتی نظام تقویت پاتا ہے۔ کرہ ارض پر بسنے والے بندہ بشرکی اکشریت اس بندوبست کی وجہ سے بھوک، افلاس، غربت اور بیماریوں کا شکار ہورہی ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم آج اس کرہ ارض کے انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

لیکن جس طرح فراعنہ مصر کے مقابلے پر موسی ڈٹ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ بالکل اسی طرح علامتی طور پر آج امریکہ میں برنی سینڈرز اور انگلینڈ میں جیریمی کوربین کھڑے ہیں۔ اجتماعی مفادات کے حصول کے لئے ایک منصفانہ سیاسی، سماجی اور معاشرتی بندوبست ناگزیر ہو چکا ہے۔ ایسا بدوبست جس میں بندہ بشر کو لسانی، نسلی، صنفی اور مذہبی تعصبات کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ دولت کی مساویانہ تقسیم ہو۔ تعلیم، صحت، خوراک اور رہایش ہر بندہ بشر کو میسر آجائے۔

دنیا میں موجود فرعونوں یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دیں کے ایسے خواب دیکھنے والے سرمایہ دارانہ نظام سے شکست کھا گئے ہیں۔ یہ خواب دیکھنے والے محض بندہ بشر نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو خود خواب ہیں۔ انسانی مساوات پر مبنی سماج کا خواب۔ امن اور فلاح کا خواب۔ خوشحالی اور صحتیابی کا خواب۔

اور خواب مرتے نہیں

خواب ڈرتے نہیں

خواب تو حرف ہیں

خواب تو نور ہیں

خواب سقراط ہیں

خواب منصور ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments