والٹیئر؛ فلسفی جو ضمیر انسانی کی آواز تھا


والٹیئر

والٹیئر 1649 میں فرانس میں پیدا ہوا۔ وہ شاید واحد فلسفی تھا جس کا ذکردوسرے دانشوروں نے انتہائی اچھے اور برے الفاظ میں کیا۔ وہ ایک بے ایمان، بے اصول، بد صورت و بد سیرت، چرب زبان، بے کار اور فحش انسان سمجھا جاتا تھا۔ ایک شاندار فلسفی میں ایسی صفات کا ذکر کچھ ہضم نہیں ہوتا۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ والٹیر کو جو مناسب لگا اس نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا اور کیا۔ باشاہوں سے لے کر پادریوں تک، اور مذاہب سے لے کر سلطنتوں تک، کوئی بھی اس کے قلم کے وار سے نہ بچ سکا۔

والٹیئر نے اپنی زندگی میں بے تحاشا کام کیا۔ وہ کہتا تھا ”کسی بھی فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے آپ کے اندر ایک شیطان یا بلا ہونی چاہیے“۔ والٹیئر کے دوست اور ناقدین سب یہ بات مانتے تھے، کہ والٹیئر کا انتھک، بے باک اور کمال ذہانت سے بھر پور کام، یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک بلا یا شیطان تھا۔ وہ کہتا تھا ”کام نہ کرنا، آپ کے نہ ہونے کی دلیل ہے۔ تمام لوگ اچھے ہیں، ماسوائے بے کاروں کے۔ میں جتنا عمر میں آگے بڑھ رہا ہوں، اتنا ہی زیادہ کام کرنا، مجھ پر فرض ہوتا جا رہا ہے۔ اگر آپ خود کشی نہیں کرنا چاہتے، تو کام کریں“۔

والٹیئر نے کلیسائیت، مذہبی توہم پرستی، کرپشن اور جاگیردرانہ اشرفیہ کے خلاف بہت پر اثر تحریریں لکھیں۔ اس کی تحریروں کی کاٹ اور کڑواہٹ پاپائیت اور استحصالی بادشاہت کے درو دیوار ہلا رہی تھی۔ قید، تشدد اور جلا وطنی سے اس کا قلم نہیں رک رہا تھا۔ وہ اکیلا آگے بڑھ رہا تھا۔ آدھی دنیا اس کو پڑھ رہی تھی۔ بادشاہ اور پادری اس سے بات چیت کی راہیں تلاش کر رہے تھے۔ اس کا حلقہ احباب میں اشرافیہ سے لے کر بڑے بڑے دانشوروں تک سب شامل ہو رہے تھے۔

کچھ کو اس نے چھوڑا اور کچھ اسے چھوڑ رہے تھے۔ یہ مشہور مقولہ بھی والٹیئر کا ہی ہے کہ ”خدا مجھے میرے دوستوں سے محفوظ رکھے، دشمنوں کو میں خود دیکھ لوں گا“۔ اس نے اپنے بارے میں مزید کہا ”دنیا میں جو بھی نایاب اور خوبصورت ہے، میں وہ سب دیکھ چکا ہوں۔ میری واحد خواہش یہی ہے کہ مجھے ایک ایسا ٹھکانہ میسر ہو، جسے میں اپنا گھر کہہ سکوں“۔

والٹیئر تاریخ کو نئے زاویوں سے لکھ رہا تھا۔ وہ موجودہ تاریخ کو باشاہوں کی کہانیاں، جرائم اور بد قسمتیوں کی تصویر کشی سمجھتا تھا۔ وہ کہتا تھا، ”تاریخ مکر و فریب کی ایک ایسے گٹھڑی ہے، جو ہم اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق گزرے ہوئے لوگوں اور زمانوں پر لادتے ہیں۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے، کہ تاریخ میں کچھ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے“۔ وہ ایسی تاریخ لکھنا چاہتا تھا، جو بادشاہوں کے ذکر سے نہیں بلکہ، عوام، تحاریک اور ثقافتوں کے پروان چڑھنے کے عمل کا احاطہ کرے۔ جو قوموں اور جنگوں کی بجائے، نسل انسانی، انسانی دماغ کی کاوشوں، خاندانی زندگی اور فنون کا ذکر کرے۔ ان مراحل کا ذکر کرے، جن سے گزر کر انسان نے بربریت سے تہذیب تک کا سفر طے کیا۔ والٹیئر نے انہی زاویوں سے تاریخ لکھی اور جلا وطنی کمائی۔

مذہب کا ذکر کیا جائے تو والٹیئر نے کلیسا اور پادریوں کے استحصالی رویے پر اتنی شدید تنقید کی، کہ اس کو دہریہ اور مرتد سمجھا گیا۔ اس نے لکھا ”عیسائیت بھی قدیم فرضی مذہبی داستانوں اور قدیم دقیانوسی اعتقادات کا تسلسل بن گئی ہے۔ یہ داستانیں اور عقائد پادریوں کی ایجادات ہیں۔ پہلی الہامی کہانی سنانے والا دنیا کا پہلا بدکار تھا، اور اس پر یقین کرنے والا دنیا کا پہلا بیوقوف“۔ والٹیئر ان مذہبی کہانیوں اور توہم پرستی میں لپٹے مذہبی خول کو ایک ایسا ڈھونگ سمجھتا تھا، جو مذہبی حلقوں نے لوگوں کو محکوم و مجبور بنانے کے لیے رچایا ہے۔

۔ خدا کے وجود کو وہ بہت سی قباحتوں سے بچنے کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ خدا کے متعلق اس نے لکھا ”اگر خدا کا وجود نہ بھی ہوتا، تو بھی یہ ضروری تھا کہ خدا ایجاد کیا جائے“۔ وہ چاہتا تھا کہ انسان اور خدا کے درمیان سے مذہبی ٹھیکیداروں کو نکال دیا جاے۔ عبادات میں سے توہم پرستی اور خوف کو نکال دیا جائے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ مذہب نہ تو ما بعد اطبیعات کی موشگافیوں میں ہے، اور نہ ہی بے کار مذہبی نمائشوں میں۔ یہ تو فقط انسان اور خدا کے درمیان تعلق اور انصاف میں ہے۔

انسان کے بارے میں اس نے لکھا ”ایک انسان کو پودے اور جانور کے درجے سے نکالنے کے لیے بیس سال لگتے ہیں۔ ماں کے پیٹ میں وہ ایک پودے کی طرح پلتا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد سے بالغ اور عاقل ہونے تک جانور کی طرح۔ اس کے ڈھانچے کی دریافت کے لیے تیس صدیوں کا وقت درکار رہا۔ اس کی روح کو سمجھنے کے لیے تو ابدیت چاہیے۔ لیکن اس بیچارے کو قتل کرنے کے لیے فقط ایک لمحہ کافی ہے“۔

والٹیئر نے سیاست اور حکومت پر تفصیلی بحث کی، مگروہ خود کو عملی سیاست کے لیے موضوع نہیں سمجھتا تھا۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا ”سیاست میرے بس کا روگ نہیں، کیونکہ میں لوگوں کو بیوقوف نہیں بناتا بلکہ ان کی عزت کرتا ہوں“۔ بادشاہت اور جمہوریت کے متعلق سوال کے جوب میں اس نے کہا ”پچھلے چار ہزار سالوں سے یہ سوال گردش میں ہے۔ امیر سے پوچھو تو وہ اشرافیہ کی حکومت چاہتا ہے۔ عام لوگوں سے پوچھو تو وہ جمہوریت چاہتے ہیں۔ چند مٹھی بھر بادشاہ ہی بادشاہت چاہتے ہیں۔ مگر پھر بھی ساری زمین روز اول سے بادشاہوں کے زیر تسلط کیوں ہے؟ یہ چوہوں سے پوچھو کہ کس نے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کی تجویز دی تھی؟ خیر، اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے، کہ عام آدمی کسی ایک شیر کا نوالہ بنتا ہے یا سینکڑوں چوہوں کا“۔

83 سال کی عمر میں والٹیئر نے تو اپنی آٖخری سانسیں اپنے آبائی شہر پیرس میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ معالج نے اس کی ضعیفی اور طویل سفر کی وجہ سے سختی سے منع کیا تو والٹیئر بولا ”اگر میں خود ہی حماقت کرنا چاہوں تو کون مجھے روک سکتا ہے؟ “۔ طویل سفر کی تھکان لیے وہ پیرس پہنچا اور سیدھا اپنے بچپن کے دوست سے ملنے گیا اور اس سے بولا ”تم سے ملنے کے لیے میں نے اپنی موت کو کچھ دیر کے لیے ٹالا ہوا ہے“۔ اگلے دن، اس کے گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم اس کو بادشاہوں والا پروٹوکول دے رہا تھا اور وقت کے بادشاہ کو یہ سب ناگوار گزر رہا تھا۔

والٹیئر کی شدید ضعیفی کو دیکھتے ہوے اس کے دوستوں نے پادری کو بلا لیا، تا کہ وہ مرنے سے پہلے گناہوں کا اعتراف کر لے۔ والٹیئر نے پادری سے پوچھا کہ تم کو کس نے بھیجا ہے؟ پادری بولا ”خدا نے“۔ والٹیئر نے کہا ”سند دکھاو“۔ پادری ناراض ہو کر چلا گیا۔ دوسرا پادری بلایا گیا، مگر اس نے شرط رکھی کہ والٹیئر ایک حلف نامہ دے کہ وہ کیتھولک مسلک کا ماننے والا ہے۔ والٹیئر نے انکار کیا اور لکھا ”میں اپنے خدا کی تصدیق اور دوستوں سے محبت کے دعوے کے ساتھ مرنا چاہتا ہوں۔ نہ کہ اس حلف نامہ کے ساتھ کہ دشمنوں سے نفرت کرو اور مکروہ توہمات کو مانو۔

وہ 1778 میں فوت ہوا تو اس کو پیرس میں تدفین کی اجازت نہ ملی۔ اس کے دوستوں نے اسے شہر کے باہر دفن کیا۔ اگلے باشاہ نے اس کی یادگار بنانے کا اعلان کیا۔ لاکھوں لوگوں نے شریک ہو کر اس کو خراج عقیدت دیا۔ اس کی جنازہ گاڑی پر لکھا تھا ”اس نے انسانی دماغ کو عظیم طاقت اور تحریک سے نوازا، اس نے ہمیں آزادی کے لیے تیار کیا“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments