پکّی نوکری وِد میڈیکل


کراچی کے نسبتہََ گنجان آباد علاقے کیماڑی میں آنکھ کھلی، جہاں خواب اور خواہشات بھی وہاں کی گلیوں کے طرح چھوٹے اور تنگ تھے۔ زندگی کو ہمیشہ انتہائی مصروف مگر بیمار ہی پایا۔ بیمار اس لئے کہ بچپن سے بڑے بوڑھوں اور بزرگوں کو اپنی اولادوں کو جب سراہتے اور تعریف کرتے سنا تو ایک ہی جملہ سماعتوں سے ٹکرایا، ”ساڈا پتر پکا نوکر اے اور میڈیکل وی اے”۔ اور نا خلف اولاد کے حصے میں جو جملہ تواتر کے ساتھ آیا، ”پتر نہ توں پکا نوکر ایں، تے نہ تیرا میڈیکل اے”۔ ان اقوال کو سنتے سنتے جب جوانی میں قدم رکھا تو یہ حقیقت اس وقت تک مکمل طور پر عیاں ہوئی کہ اس کمیونٹی میں جیتے ہوئے بھی مرنے کا سامان کاندھے پر لاد کر چلو، معلوم نہیں کب بیمار ہونا پڑ جائے۔

آج جب سپریم کورٹ کے کرونا وائرس سے متعلق لئے گئے سو موٹو کے جواب میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے فی الوقت پاکستان میں دست یاب وینٹیلیڑز کی تعداد تحریری طور پر بتائی تو مجھے ان بے شمار سوالوں کے جوابات مل گئے جو شاید میں بچپن سے اپنے اندر تلاش کر رہا تھا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ جینے سے زیادہ مرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں؟ کیوں ہمیں جینا مشکل اور مرنا آسان لگتا ہے؟ شاید اس لئے کہ ہمیں ریاست نے زندہ رہنا سکھایا ہی نہیں اور نہ زندہ رہنے کا سامان مہیا کیا۔ زندہ رہنے کے لئے جو لوازمات درکار ہیں۔ ان کی جگہ ہم نے موت جو خرید لی۔

جہاں پارک ہونے چاہیے تھے۔ وہاں مزارات ہیں۔ جہاں کھیل کے میدان سجنے چاہیے تھے۔ وہاں سامانِ حرب کی نمایش ہوتی ہے۔ جہاں پھولوں سے سجے باغات ہونے چاہیے تھے، وہاں ٹینک نصب ہیں۔ گلی محلے ہوں۔ دفاتر ہوں یا تجارتی مراکز۔ سیاسی محافلیں ہوں یا شادی بیاہ خوشی کا اظہار بھی گولی چلا کر کرنے والے، بھلا زندگی کی قدر کیا جانیں۔

اس صورتِ حال میں اٹارنی جنرل کی تحریری طور پر دی گئی رپورٹ کے مطابق اگر وینٹیلٹرز کی تعداد جو کہ بلوچستان میں 20، کے پی کے میں 55، پنجاب جس نے آبادی کا 60 فی صد آبادی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے تعداد 130 ہے اور سندھ بھر میں موجودہ وینٹیلیٹرز کی تعداد 484 ہے، تو بالکل یہ تعداد ہمارے قومی زوق اور ترجیحات کے عین مطابق ہی ہے۔ 2015ء میں صرف دو ماہ میں سیکڑوں بچے چلڈرن اسپتال لاہور میں اینکیوبیٹر نہ ہونے کے سبب مارے گئے۔ جس ملک میں سالانہ کھربوں کا سامانِ موت خریدا جاتا ہو، وہاں زندگی کے لئے بھلا حقیر سی چیز وینٹیلیٹر اور اینکیوبیٹر بھلا کیا اہمیت رکھتے ہیں۔

مجھے یہ ماننا پڑے گا، کہ میری جائے پیدائش کے مستقبل شناس بزرگوں نے میڈیکل کی ضرورت کو اس لئے مقدم جانا، کہ نا ہمارے یہاں ریاست یہ سہولیات عامی آدمی کو دینے کی سکت رکھتی ہے اور نہ عام آدمی اس کی امید ریاست سے کر سکتا ہے۔ لہذا ”پکی نوکری ود میڈیکل“ ہی آپ کے تمام مسائل کا حل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments