وبا کے محاصرے میں قلعہ احمد نگر سے خط


(“غبار خاطر” میں مولانا ابوالکلام آزاد کے خاص اسلوب سے استفادہ)

صدیق مکرم!

وہی صبح کا جانفزا وقت ہے۔ چائے کا فنجان سامنے دھرا ہے۔ نسیم صبح کا مزاج بدلتا محسوس  کررہاہوں۔ بہار کا موسم گل بکف رخصت ہوا چاہتا ہے اور گرمیوں کی آمد آمد ہے۔ یوں بھی قلعے کے دیواروں کے بیچ بہار کی آفرینیوں کا کیا کام۔

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج

اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

موسم کی نیرنگیوں کا حال جاننا ہوتو گلمرگ اور کشمیر کا رخ کیجیے۔ قلعے کے قیدیوں کے لیے یہ محض تصورات اور خوابوں کے بدلنے کا تماشا ہے ۔

خزاں کیا، فصل گل کہتے ہیں کس کو، کوئی موسم ہو

وہی ہم ہیں، قفس ہے اور ماتم بال وپر کا ہے

مگر اس برس کو قدرت کا دست تماشا عجب انداز سے ظاہر ہورہا ہے۔ ہم قلعے میں ہیں تو باہر کی دنیا بھی اپنے گھروں کے محصور ہے۔اگر مادرد دل داریم زاہد درد دیں دارد۔ قلعے میں خبررسانی کا ذریعہ اخبار ہے جو دن کے بارہ سے ایک بجے تک آتا ہے۔ چیتا خان(قلعہ احمد نگر کا جیلر) روز اخبار کے ساتھ کئی طرح کی خبریں، احتیاط کی ہدایات اور خبریں لے کرنازل ہوتا ہے۔ دم بھر کو وہ اخباری خبردہندہ، دمے طبیب حیاتیات  اور دمے افسانہ گو  معلوم ہوتا ہے۔ کچھ دیر اس کی زبان کا زنگ اتارنے کو تقریر سنتا ہوں اور پھر اخبار کے مطالعے میں مشغول ہوجاتا ہوں۔

کورونا کے جرثومے کی ایک قسم جو گذشتہ برس کے آخر میں چین کے شہر ووہان میں پیدا ہوئی ہے  اوردیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم میں پھیل چکی ہے۔ بنیاد ظلم درجہان اندک بود۔ چین میں اس کی ہلاکت خیزیاں کسی طرح کم نہ تھیں کہ اس نے جدید وقدیم مغرب کو لپیٹ میں لے لیا۔ ایران سے برصغیر کی جانب لپکا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک پھیلتا جارہا ہے۔ اخبارات بتاتےہیں اب تک اس وبا سے لڑتے لڑتے ڈیڑھ لاکھ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بیس لاکھ سے زیادہ مبتلا بہ ہیں۔

پانچ مہینے ہونے کو ہیں مگر یہ اب تک بے درماں ہے۔ چین کے علمائے حیاتیات نے کہا تھا  اس بیماری کا علاج دریافت کرنے میں سولہ مہینے لگیں گے۔  یا للعجب !ایک جرثومہ جسے خردبین سے دیکھنے کو بھی ہزار گنا بڑا کرکے دیکھنا پڑتا ہے  بیس لاکھ انسانوں کی جان سے کھیلتا ہوا ملکوں ملکوں سفر کرتاہے۔

دریں میدان پر نیرنگ حیران است دانائی

کہ یک ہنگامہ آرائے وصد کشور تماشائی

اورعلاج کے لیے بڑے بڑے ماہرین حیاتیات کو حیران ودرماندہ کرکے چھوڑتا ہے۔اب تک جو اس بلائے بے درمان سے پناہ گاہ ڈھونڈی گئی ہے وہ تنہائی ہے۔  نیرنگی دوراں دیکھئے،زندگی اپنے وجود کے لیے قیدتنہائی کا احتیاج اٹھانے لگی ہے ۔ یعنی  کل تک جو چیزانسانوں کے حق میں سزا تھی اب زندگی کی ضمانت  ہوگئی۔عدو شود سبب خیر گر خدا خواہد۔ وصل وقرب کے معانی بدل گئے ہیں۔ کسی سے دوری کو اس سے محبت اور بے محابا قربت کو دشمنی خیال کیا جاتا ہےاس وبا کی خاصیت یہ ہے کہ اژدہام سے پھیلتی ہے۔ جس کو لگتی ہے اس کی تشخیص کو علامات دو ہفتے بعد ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ گویا بیماری نہ ہوئی اک معمہ ہوا۔ اک پہیلی ہے جو نہیں بوجھتی۔ سونچتا ہوں تو زندگی بھی اک معمہ معلوم ہوتی ہے۔ ہر کسی نے اس کی الگ  اور ادھوری تعریف کی ہے۔ ہر راہ نورد کو اس کا قصہ الگ لگتا ہے۔

در رہ عشق نہ شد کس بہ یقین محرم راز

ہر کسے برحسب فہم گمانے دارد

پوری دنیا پر سکوت طاری ہے۔ یوم یفرالمرء کامنظر ہے۔ مشرق تامغرب، ادنی تا اعلی، پورب تاپچھم کوئی  اس جرثومہ کورونا کے قانون سے ممتاز اور الگ نہیں ہے۔ نیویارک اور پیرس کی سڑکوں پر ہوائیں سائیں سائیں گذررہی ہے۔ ان عظیم الشان شہروں کی بڑی بڑی مارکیٹوں  کی ساری ہنگامہ خیزیاں مٹ چکی ہیں۔ یورپ کے قمار خانے ، مے خانے اور تجارت گاہیں جو عالم میں اپنی شہرت رکھتی ہیں سنسان ہورہی ہیں۔ یک نعرہ مستانہ زجائے نہ شنیدم۔ بڑی بڑی طاقتیں سرمایہ جن کے رگوں کا خون ہے۔ رک جائے تو ان کے دلوں کی دھڑکن رک جاتی ہے وہ بھی سارا نظام روکے کھڑی ہیں۔ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے جتنی نقل وحرکت بڑھے گی اتنا ہی یہ جرثومہ اپنی حشر سامانیاں پھیلائے گا۔ زندگی جتنی ساکت وجامد ہوگی اتنی حیات آفریں ہوگی۔

ہرچند دست وپا زدم آشفتہ تر شدم

ساکن شدم میانہ دریا کنارہ شد

سارا جہاں کرونا سے  لڑنے کے لیے اپنی ہمت بروئے کار لا رہاہے ۔ معالجوں کی ٹیمیں ساری دنیا میں بیماروں کا علاج کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر ایسے کہ ان کے پاس علاج کا کوئی نسخہ نہیں۔ بیا کہ ما سپر انداختیم اگر جنگ است۔ ساری دنیا اپنا ہوش کھوبیٹھی ہے۔ سیاست، ثقافت،ادب  اور زندگی کے ہر رنگ پر بیماری اور موت کا رنگ غالب آچکا ہے۔ دنیا ایک عالمگیر وبا میں گری ہوئی  ہے اور مزید گری جارہی ہے۔  معاشی امور کے علماء کہتے ہیں چند ماہ بعد جب زندگی ایک نئی جنم لے کر اٹھ کھڑی ہوگی تو اسے معاشی بدحالی کے ایک اور عفریت کا سامنا ہوگا۔ ایک معمولی جرثومے کےاٹھائے ہوئے طوفان کی اثر اندازی اس قدر گہری ہے کہ یہ برسوں تک پوری دنیا کو معاشی  بدحالی کےطوفانی بھنور میں گردش دیتی رہے گی۔

انسانیت کو درپیش اس تحدی کی کیفیت پر سونچنے اور غور کرنے والے انسان کو ایک چیز بہت اچھی طرح سمجھتی آجاتی ہے کہ اس جرثومہ کی تباہ کاریوں کی زد پر پوری کائنات میں صرف انسان ہے۔  انسانوں کے درمیان تمیز اور فرق کی ساری دیواریں اور حدبندیاں اس کے ہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ انسان نے بہت سے معاملات میں فطرت اور کائنات کے فطری تقاضوں کو اپنی  منصوبہ بندی سے باہر رکھا۔ اب فطرت اپنا انتقام لے رہی ہے۔  جب فطرت انسانی زندگی کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے تو سارے انسان آپس کے سیاسی، مذہبی اور طبقاتی فرق کو مٹاکر انسانیت کو بچانے کے لیے ایک دوسرے کے دست وبازو بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ کورونا جرثومے کے ہلاکت خیز حملے کے بعد جب خوف اور تنہائی کی وحشت کے بادل چھٹ جائیں گے اور دنیا پر معاشی تباہی کے مہیب سائے پھیلنے لگیں گے تب بھی دنیا کو چاہیے کہ اسی جذبے کو بروئے کار لائیں۔ انسانیت کی بقا کے لیے اجتماعی کوششیں اور اجتماعی مفاد کا تحفظ لازمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments