سندھڑی دا، سہون دا، سخی شہباز قلندرؒ


اگر دنیا بھر میں کورونا کی وبا پھیلی ہوئی نہ ہوتی تو، اتوار 12 اپریل 2020 ء، 18 شعبان المُعظّم 1441 ہ سے دینِ حق کا پیغام افغانستان تا سندھ پہنچانے والے جلیل القدر بزرگِ دین اور جیّد ولی اللہ، حضرت لال شہباز قلندرؒ کا 768 واں سالانہ عُرس مبارک سہون شریف میں شروع ہو چکا ہوتا۔ اگر ہم پاکستان کے بڑے فیسٹیولز اور عوامی اجتماعات کا ذکر کریں تو یہ عرس، ملک کا غالباً سب سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو جمع کرنے والا میلہ ہوا کرتا ہے۔

یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم حضرت لال شہباز قلندرؒ کی سوانح کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے اور اُن کے انتہائی مختصرحالاتِ زندگی ہمیں دستیاب ہیں، جن کے مطابق اُن کا اصل نام سیّد عثمان مروندی تھا، جو 1177 ء میں افغانستان کے شہر ”مروند“ میں پیدا ہوئے، جبکہ اُن کا وصال، 1247 ء (کچھ روایت کے مطابق کچھ اور برسوں ) میں لگ بھگ 97 برس کی عمر میں سندھ کے شہر سہون شریف میں ہوا، جہاں اُن کو سپردِ خاک کر دیا گیا اور وہ سہون اور سندھ کی پہچان بن گئے۔

اُن کے والدِ گرامی کا نام محمّد ابراہیم کبیرالدین مروندی تھا اور اُن کا سلسلہء نسب 13 ویں پُشت میں حضرت سیدنا امام جعفر صادقؓ سے جا ملتا ہے، جس شجرہء نسب کی ترتیب یوں بتائی جاتی ہے : ”سیّد عثمان مروندی (حضرت لال شہباز قلندرؒ) بن سیّد کبیر بن سیّد شمس الدّین بن سیّد نُور شاہ بن سید محمود شاہ بن احمد شاہ بن سیّد ہادی بن سیّد مہدی بن سیّد منتخب بن سیّد غالب بن سیّد منصور بن سیّد اسماعیل بن سیّد امام جعفر صادقؓ“ حضرتِ شہباز کے اسلاف نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی، جہاں کی تعلیمات دورِ قدیم سے مشہور تھیں۔

بعد میں وہ مروند کی طرف ہجرت کر کے آگئے۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا گہرا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ حضرت قلندرؒ کا زمانہ اولیائے اکرام کا زمانہ سمجھا جاتا ہے، جس دور میں مشہور بزرگانِ دین، شیخ بہاوالدین ذکریا ملتانیؒ، شیخ فریدالدین گنج شکرؒ، حضرت شمس تبریزیؒ، حضرت مولانا جلال الدّین رومی بلخیؒ اور سید جلال الدّین سُرخ بخاریؒ اُن کے قریب قریب ہم عصر ہیں۔

سندھ کے معروف صاحبِ علم دانشور، حکیم فتح محمد سیوہانی اپنی مشہور تصنیف ”قلندرنامہ“ میں لال شہباز قلندرؒ کا ”شجرہء طریقت“ قلمبند کرتے ہوئے بتاتے ہیں :

”حضرت قلندر مروندی سیوہانی کا سلسلہء قلندری، حضرت امام زین العابدین کے واسطے سے سرورِ کائنات حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ کیونکہ یہ سلسلہ سیّد جمال سے حضرت علی بن موسیٰ رضا، امام جعفر صادق، امام زین العابدین اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کریم سے ہوتا ہوا، سرورِ کائنات حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ “

مگر لال شہباز قلندرؒ کے متعدد سوانح نگاروں نے ان کا سلسلہء طریقت۔ ”قادریہ“ بتایا ہے۔ دارا شکوہ نے جو اپنا شجرہء طریقت ”تذکرہ الفقرہ“ میں درج کیا ہے، وہ شہباز قلندرؒ کو شیخ عبدالقادر جیلانی سے ملاتا ہے۔ تحریر کرتے ہیں :

”دارالشکوہ، مرید مُلا شاہ خشی، مرید میاں میر سیوہانی، مرید حضرت خضر سیوہانی، مرید شاہ سکندر، مرید خواجہ خانی، مرید سیّد علی قادری، مرید حضرت مخدوم سیّد عثمان مروندی قلندر شہباز، مرید شاہ جمال“ مُجرّد ”، مرید ابواسحاق ابراہیم، مرید مرتضیٰ سبحانی، مرید حضرت احمد بن مبارک، مرید حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ “

اسی وجہ سے شہباز قلندرؒ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کی سخت ضرورت ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ ان کے حوالے سے کون سی معلومات مستند ہیں اور کون سی نہیں۔

حضرت لال شہباز قلندرؒ کی تعلیم کے حصول کے حوالے سے مضبوط روایت ہے کہ انہوں نے سات یا آٹھ برس کی عمرمیں قرآنِ مجید حفظ کر لیا تھا۔ جس کے بعد اس دور کے مروّجہ عربی اور فارسی کے اہم مضامین میں رسمی تعلیم کا کامیاب حصول کیا اور پھر طریقت کی تلاش میں نکل پڑے اور اپنی حیات کا بیشتر حصّہ، مروند سے باہر سیر و سفر میں گزارا۔ آپ کی زندگی کے دستیاب احوال کے مطابق آپ کے دو مرتبہ سفرِ حجّازِ مقدس کا احوال ملتا ہے۔

روایت میں آتا ہے کہ آپ نے حجِ بیت اللہ بھی کیا۔ یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ آپ نے بغداد اور مشہد کا سفر بھی کیا۔ وہاں سے واپسی پر آپ اپنے شہرِ پیدائش ”مروند“ واپس نہیں گئے، بلکہ موجودہ پاکستان کی سرحدوں کی طرف تشریف لائے۔ جہاں پہلے آپ نے ملتان میں قیام کیا (جو اس وقت سندھ میں شامل تھا۔ ) ان کے ملتان میں قیام کے حوالے سے ”تحفتہ الکرام“ کی جلد سوئم میں مندرجہ ذیل ذکر ملتا ہے :

”حضرت لال شہباز قلندر جب ملتان تشریف لائے تو اس زمانہ میں غیاث الدّین بلبن تخت نشین تھا۔ غیاث الدّین بلبن عارفوں اور علمائے کرام کا بہت بڑا قدردان تھا۔ جب اس نے قلندر شہباز کی آمد کی خبر سنی، تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی تعظیم بجا لایا، وہ آپ کے لیے بیش بہا تحائف بھی لایا۔ جس سے اس کی آپ کے ساتھ عقیدت بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ تحائف پیش کرنے کے بعد اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ملتان میں مستقل قیام کریں، مگر آپ نے قیامِ ملتان کے سلسلے میں معذرت کرلی۔ “

لال شہباز قلندرؒ کے ملتان میں قیام کے حوالے سے ”تاریخِ فیروز شاہی“، ”تاریخِ معصومی“، ”لُبِ تاریخ سندھ“ اور ”مآثر الکرام“ (جلد اوّل) جیسی اہم تاریخی کتب میں مندرجہ ذیل (ایک ہی) واقعہ قلمبند ہے :

”اس دوران میں سلطان محمّد نے ایک عربی سرود کی مجلس کا اہتمام کیا۔ اس مجلس میں حضرت غوث العالم غوث بہاؤالدین ذکریا ملتانی کے فرزندِ ارجمند، حضرت صدرالدّین عارف ملتانی بھی موجود تھے۔ یہ دونوں بزگان، یعنی لال شہباز قلندر اور عارف ملتانی عالمِ وجد میں رقص کرنے لگے اور خود سلطان محمّد کا بھی یہی عالم تھا۔ “

مختلف روایت کے مطابق لال شہباز قلندرؒ ملتان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد موجودہ بلوچستان کے علاقے ”پنجگُور“ چلے گئے، جہاں پر کچھ عرصہ تبلیغِ اسلام کرنے کے بعد سہون تشریف لائے، جہاں عمر کے آخری چھ ماہ (کچھ روایات کے مطابق ڈیڑھ سال) قیام کیا، اور وہیں پر جامِ وصالِ خالقِ حقیقی نوش کر کے وہیں پر آبادی آرمی ہوئے اور ”سندھڑی کے“ اور ”سہون کے“ کہلائے۔

لال شہباز قلندرؒ کو ان کی زندگی میں اور بعد از مرگ ان کے منفرد خصائل کی وجہ سے مختلف القاب سے نوازا گیا، جن میں ”لال“ (اکثر سرخ لباس میں ملبُوس ہونے کی وجہ سے ) ، ”شہباز“، ”سیف اللسان“ (روایت کے مطابق، ان کی کی ہوئی اکثر پیشنگوئیاں پوری ہونے کی وجہ سے ) ، ”قلندر“ (سلسلہء قلندری سے متعلق ہونے کی وجہ سے ) ، ”شمس الدّین“ (مبلغِ اسلام ہونے کی وجہ سے ) ، ”مہدی“، ”مخدوم“ (علومِ ظاہری و باطنی میں مہارت کی وجہ سے ) وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کی وفات 21 شعبان المعظّم 673 ہ، کچھ کتابوں کے مطابق 590 ہ، کچھ تواریخ کے مطابق 669 ہ، جبکہ کچھ کتب کے مطابق 670 ہ میں ہوئی۔

حضرت لال شہباز قلندرؒ کے نام سے منسوب، فارسی میں کچھ کلام ملتا ہے۔ جس کا نمونہ کچھ یُوں ہے :
عظیم از فکر اے پروردگارا!
ہر اک سلطان ہے نوکر تمہارا
نہ میری خامیوں کی حد ہے کوئی
عطا ہو فضل و رحمت کا اشارہ
ترا سارے جہانوں میں بسیرا
تو ہی موجود، پنہاں آشکارا
ہے تشنہ دید کا ”عثمان“ دل سے
اُسے دیدار کا دے دے سہارا
یا پھر اُن کی ناصحانہ غز ل کے یہ اشعار:
طلب میں مرے دل ہوں ثابت قدم
خدا کے سوا بھول جا سب بھرم
نفی کر سبھی کی خدا کے سوا
کہ کر نوش اثبات کے جام و جم
طلب پیرِ کامل کی کر کُوبکو
بنے جو ترا رہنما دم بدم
مندرجہ بالیٰ کلام سمیت حضرت شہباز قلندرؒ کا تمام دستیاب کلام، راقم نے فارسی سے اردُو خواہ سندھی میں منظوم ترجمہ کیا ہے، جو غیر طبع شدہ ہے۔ ان کا دستیاب سارا کلام ”شہباز نامہ“ کے عنوان سے مرحوم مخدوم غوث محمّد ”گوہر“ پیرزادہ نے سندھی نثر میں ترجمہ کیا ہے، جو کتاب شایع شدہ ہے۔ اس کلام کے حوالے سے بھی گمان ہے کہ یہ ”عثمان“ نامی اُسی دور کا کوئی اور شاعر ہے، جس کا کلام اُن سے منسوب کیا جا رہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ دورِحاضر کا محقق، موجُود وسائل کو برُوئے کار لاتے ہوئے، جدید طرزِ تحقیق پر حضرت لال شہباز قلندرؒ کی حیات و خدمات و کلام کے حوالے سے تحقیق کرے اور ہم سب کو بتائے کہ اس عظیم ولی اللہ کی زندگی کے کون کون سے درخشاں پہلو ہیں، جو آج تک ہم سب سے چھپے رہے ہیں اور ان کی زندگی کے حوالے سے مُروّجہ غلط روایات اور مافوق الفطرت ”کرامات“ کی چھان بِین کرے اور یہ بھی معلُوم کرے کہ واقعی یہ کلام ان کا ہے؟ یا کسی اور ”عثمان“ کا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments