عشرت فاطمہ سے چند سوالات


عشرت فاطمہ جو بعد میں عشرت ثاقب بنیں، پاکستان میں ٹی وی کے اس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب صرف اور صرف پی ٹی وی کا راج ہوا کرتا تھا۔ رات نو بجے کا خبرنامہ ملک کے طول و ارض میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ سنا اور دیکھا جاتا تھا۔ عشرت فاطمہ کا سادگی اور متانت بھرا انداز، اجلا ہوا لباس، سر پر لیا ہوا سفید دوپٹہ، ناک میں پہنی گئی چھوٹی سی نتھ، کپڑوں کے ساتھ میچنگ قلم، پر اثر آواز، خوبصورت تلفظ اور سنجیدہ انداز ہم میں سے بہت سوں کی بچپن اور نوجوانی کی خوشگوار یادوں کا حصہ ہے۔ موجودہ چیخ چنگھاڑ اور بریکنگ نیوز کے دور میں وہ سب ماضی بعید کا حصہ لگتا ہے۔ حال ہی میں عشرت فاطمہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹویٹر پر جہاں وارد ہوے انھیں ڈیڑھ سال سے کم کاعرصہ ہوا ہے، لوگوں کے دلچسپ سوالوں کے جوابات دیے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں

سوال : آپ کے چاہنے والے تو لاکھوں ہیں لیکن اپنی فیلڈ میں موجودہ دور میں آپ کس کی مداح ہیں؟
۔ جواب: (مسکراتے ہوے ) مشکل سوال ہے
سوال : آپ آج کل کیا کر رہی ہیں؟ ریٹائرمنٹ یا کام؟
۔ جواب: ریڈیو سے وابستہ ہوں
سوال : کبھی زندگی میں انتہائی بے بس ہوئیں ہیں؟ کب اور کیسے؟
۔ جواب: بہت بار۔ مگر ہمیشہ اللہ کی یاد میں پناہ ملی
سوال : کیا کبھی ایسی خبریں بھی پڑھیں جو غلط تھیں مگر حکومتی دباؤ میں ذمہ داری نبھانی پڑی؟
۔ جواب: ایسا کبھی نہیں ہوا
سوال : نیوز کاسٹر بننے کی جب آفر ہوئی تو کبھی کسی فیملی ممبر نے اعتراض کیا یا سب نے سپورٹ کیا؟
۔ جواب: نہیں۔ بالکل اسی وقت میں ایر ہوسٹس کے لئے بھی منتخب ہو گئی تھی۔ میرے نانا جی نے کہا کہ تم نیوز کے شعبے میں جاؤ

سوال : پی ٹی وی کب بدلے گا؟
۔ جواب: جب پرائیویٹ ہو گا۔ اور یہ ممکن نہیں
سوال :آپ کا حج کا تجربہ کیسا رہا؟
۔ جواب: ہائے کیا پوچھ لیا۔ کون سی گھڑی ہو بلاوا آ جائے۔ کاش۔ اے کاش۔ اس سفر کی کوئی بات بھولنے والی نہیں

سوال : آپ نے کبھی ڈراموں میں کام کا سوچا؟
۔ جواب: آفر ہوئی تھی مگر میں اداکاری نہیں کر سکتی
سوال : آپ کا لباس پین اور نوز پن بہت مشہور رہا اس تیاری میں آپ کی مدد کون کرتا تھا؟
۔ جواب: میری امی
سوال : مطالعہ کتنا ضروری ہے آپ کیا کیا پڑھتی ہیں؟
۔ جواب: سب سے اہم اور صحت مند مصروفیت ہے یہ۔ مجھے آٹو بائیو گرافیز پڑھنا اچھا لگتا ہے مگر ان شخصیات کی جو مجھے اچھی لگتی ہوں

سوال : موجودہ نیوز کاسٹرز کو دیکھ کے تربیت کی ضرورت محسوس کی کوئی ادارہ بنانے کا سوچا؟
جواب: کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں، ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
سوال : موجودہ دور کی نیوز بلاسٹر ( کاسٹر ) کے لئے کوئی پیغام؟
۔ جواب: آپ کے سوال میں جواب ہے۔ بلاسٹ نہ کریں۔ خبر آرام سے سننے، دیکھنے والے تک پہنچائیں۔ اس کا حصہ نہ بنیں

سوال : آپ نے صحافت میں آنے کا آغاز کیسے کیا تھا؟
جواب: نویں گریڈ میں سکول میں تقا ریر کرتی تھی۔ ایک استاد ریڈیو میں خبریں پڑھتی تھیں۔ وہ ایک تقریری مقا بلے میں لے گئی تھی۔
سوال :آپ نے کئی سیاستدانوں کے ادوار کو قریب سے دیکھا ہے۔ کوئی ناقابل فراموش واقعہ؟
جواب: یقین کیجئے بہت۔ بھولنے والا تو کوئی نہیں۔ سنانے کے لئے جگہ کم ہے۔
سوال : آپ کے کتنے بچے ہیں؟
۔ جواب: دو، شاہ میر اور رویام
سوال :کیا آپ اپنے بچوں میں کسی کو صحافت میں لانا چاھیں گی؟
جواب: سچ کہوں تو نہیں۔
سوال: آپ نے کتاب لکھنے کا کبھی سوچا؟
جواب: سچ بتاؤں؟ سوچا تھا۔ مگر پھر سوچا کیا اتنا سچ لکھ پاؤں گی؟ حوصلہ نہیں ہوا۔ ہاں معاشرتی مسائل پر کالم ضرور لکھنا چاہتی ہوں۔

سوال : آپ کے خیال میں دعا سے ہٹ کر وہ کیا چیز ہے جو پاکستانیوں کو کرونا کی اس عالمی وبا سے مقابلے میں کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے؟

جواب: احتیاط جو ہم بالکل نہیں کر رہے۔ اسے سنجیدہ نہیں لے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments