مشعال خان: علم اور شعور کا استعارہ


اگر ہم تاریخی پس منظر کا جائزہ لیں تو تاریخ انسانی ایسے باصلاحیت اذہان سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سچ، دانائی اور شعور کا عَلم ہمیشہ تھامے رکھا اور اپنے اندر کے پختہ سچ کا ببانگ دُہل اظہار کیا۔ اس کے بدلے میں ایسے لوگوں کو اپنے سچ کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی مگر انہوں نے اپنے سچ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور آنے والے لوگوں کے لیے نئے آدرشوں اور بصیرتوں کے در وا کیے اسی وجہ سے دانائی کا یہ سفر آج بھی پورے زورو شعور سے جاری ہے۔

گلیلیو کا جرم بس اتنا سا تھا کہ اس نے ایک ایسے جھوٹ کا راز فاش کیا تھا جو کہ صدیوں سے سچ کے روپ میں اسٹیبلش ہو چکا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ زمین گردش کرتی ہے مگر سچ اور جھوٹ کا فیصلہ تاریخ نے کر دیا اور گلیلیو اپنے سچ کے ساتھ امر ہو گیا۔ 7 نومبر 1992 کو تقریباً 359 سال بعد پوپ جان پا ل دوئم نے گلیلیو سے چرچ کی طرف سے معافی مانگی۔ سچ کی مجبوری یہ ہے کہ یہ چھپا نہیں رہ سکتا چونکہ یہ ننگا اور واضح ہوتا ہے۔

جیسے ہم سورج کی روشنی کا انکار نہیں کر سکتے بالکل اس طرح سے سچ کا بھی انکار ممکن نہیں ہوتا کچھ وقت کے لیے مصلحت کے پردے میں چھپایا ضرور جاسکتا ہے مگر پھر ہر دور میں کچھ ایسے سر پھروں کا ظہور ہو جاتا ہے جو ان عبوری رکاوٹوں اور روایتی دیواروں کو مسمار کرکے حقیقی سچ کو پھر سے کھوج لیتے ہیں۔ 13 اپریل کا دن وہ سیاہ دن ہے جس دن اندھیروں اور انتہا پسند سوچ کے حامیوں نے مشعال خان کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ مکتب اعلٰی پشاور یونیورسٹی میں قتل کردیا تھا۔

یہ تاریخ کا وہ ہولناک اور المناک دن ہے کہ جس دن ایک ایسے نوجوان کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کردی گئی جو ہمیشہ یہ کہا کرتا تھا کہ علم کے بغیر انسانی زندگی ناممکن ہے۔ وہ ایک ایسا با خبر اور با شعور انسان تھا کہ جس نے اپنے ساتھی طالب علموں کو سوچنے کا ایک نیا قرینہ دیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مشعال کو کسی پہاڑ یا کسی کونے کھدرے میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ اسے اس کی مادرعلمی میں قتل کیا گیا جہاں پر اس نے نا صرف خود کو علم و دانش سے منور کیا تھا بلکہ اسی شعور کو پھیلانے کے لیے وہ اپنے ساتھی طالب علموں کے درمیان ایک علمی مکالمہ کی فضاء کو بھی پروان چڑھا رہا تھا مگر اس مردہ معاشرہ نے اس کی آواز کو بند کردیا۔

مردہ معاشرے اپنے اہل دماغ کے ساتھ ایسا ہی بے رحمانہ برتاؤ کیا کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے مشعال کو قتل کیا تھا وہ اسی مردہ معاشرے کے برائے نام تعلیم یافتہ لوگ تھے مگر ان میں شعور نام کی کوئی چیز نہیں تھی اگر ان میں شعور کی رمق باقی ہوتی تو وہ کبھی بھی بصیرت اور علم کی اس شمع کو بجھنے نہ دیتے۔ پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے ملک میں ایک خوفناک قسم کا دھندہ چل پڑا ہے کہ جب ہم کسی کو زیر کرنا چاہتے ہیں یا اس کا ابلاغ چوری کرنا چاہتے ہیں تو اس شخص پر گستاخِ رسول ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ mob lynchingکی صورت میں سامنے آجاتا ہے۔

مشعال خان تو علم اور حق کا ساتھی تھا۔ وہ روایتی اور گھسی پٹی دیواروں کو مسمار کرنا چاہتا تھا وہ ایک عظیم باپ کا بیٹا تھا۔ مشعال کے والد نے اس المناک دن پر بھی یہ واضح پیغام دیا تھا کہ ”میرا مشعال تو چلا گیا لیکن میں اس ملک کے ہر مشعال کے لیے یہ جنگ جاری رکھوں گا“ مشعال خان اس معاشرے کا وہ باغی انسان تھا جو کہ روایتی کھیلونوں سے نہ بہل سکا۔ بقول ڈاکٹر خالد سہیل

نئی کتاب، مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
روایتوں کے کھلونوں سے دل نہ بہلے گا
بغاوتوں سے منور شباب چاہیں گے
حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا
ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے
مشعال خان کہا کرتا تھا کہ یہ سخاوت اور نیکی بالکل نہیں ہے کہ ہم کسی کو بھیک دیں انسانیت یہ ہے کہ اس معاشرے میں ہر انسان کو برابرکے حقوق دیے جائیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انقلابی سوچ کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ انقلابی خیالات وقت کے ساتھ ساتھ جنم لیتے رہتے ہیں اور انسانی سوچ مسلسل آگے کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ اس سائنٹیفک اور علم و ہنر کی بالغ صدی میں ہمیں نوجوانوں کے تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کا حقائق پر مبنی جواب بھی دینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments