نیوورلڈ آرڈر اور پاکستان


اس وقت دنیا میں دوطرح کی قوتیں بڑے عروج پر کام کررہی ہیں، ایک خدا کو ماننے والے اور دوسرے وہ جو خداکو نہیں مانتے۔ دسمبر 2019 ء سے دنیا میں کرونا وائرس COVID۔ 19 کی وجہ سے تباہی شروع ہوئی ہے تو یہ قوتیں پورے شدومد کے ساتھ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئی ہیں۔ کچھ لوگ کرونا وائرس کو قدرتی اور بعض مصنوعی قراردے رہے ہیں اور اسی طرح اس کا سائنسی اور روحانی علاج بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ ملحدین روحانیت کو بڑی حقارت سے دیکھتے ہیں اور اس کی سائنسی وجوہات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

تاہم دونوں صورتوں میں تاحال اس کا علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ معیشت دانوں کے مطابق دنیا کو وسائل اور آبادی کے لحاظ سے کنڑول کرنے کا ایک قدرتی نظام موجود ہے۔ اس سے قبل بھی ایسی بہت سے آفتیں آتی رہی ہیں اور پھر معیشت کو کنٹرول کرنے کے لئے دوسروں کے وسائل پر مختلف طریقوں سے قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیا میں جنگ غیر ملکی وسائل سے فائدہ حاصل کرنے کا ایک غیر اخلاقی طریقہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ”نیو ورلڈ آرڈر“ جاری کیا گیا تھا۔

ہنری کسنجرنے اپنی کتاب ”ڈپلومیسی“ میں لکھا ہے کہ
The study of last 500 years proves that every century rises a nation which has believe the will and the confidence to shape the entire world in its own image۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو 1492 ء میں سپین ایک بڑی طاقت تھا اور پھر پرتگال کا وقت آگیا، پرتگالی کہاں سے اٹھ کر لاطینی امریکہ اور ایشیاءتک آگئے، پھر سترہویں صدی میں فرانس کا وقت آجاتا ہے اور فرانسیسی کچھ عرصہ تک چلتے رہتے ہیں بعد میں برطانوی سامراج کا وقت آگیا اور وہ دنیا پر حکومت کرتے ہیں۔

اب امریکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پوری دنیا کو اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر سید محمد علی کے مطابق ورلڈ آرڈ کو مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ دنیا میں عالمی طاقتوں کے درمیان طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے پر مبنی ہوتا ہے۔

2۔ دنیا میں اس اثر رسوخ کے تابع ہوتا ہے کہ یہ دنیا میں ایک نظام کو مرتب بھی کرسکے اور اس میں مربوط اصولوں پر قائل بھی کرسکے۔

3۔ ورلڈ آرڈر دنیا کی ریاستوں کے درمیان طاقت کے توازن کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ دنیا کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی نمائندگی کرتا ہے کہ دنیا کو کس نظام کے تحت چلنا چاہیے۔

4۔ طاقت کا دنیا میں توازن طاقت پر مبنی نہیں ہے بلکہ معاشی مفادات یا فوائد پر مبنی ہے۔ اب ایک اور مکتب فکر کا کہنا ہے کہ ریاستیں کے درمیان طاقت کا توازن عالمی نظام کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی اقدار پر ہوتا ہے اور دنیا اپنی مرضی سے اس پر عمل کرتی ہے۔

اب آپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بات کو مانیں یا نہ مانیں، لیکن پوری دنیا کو اس کے بنائے ہوئے ادارے (ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ وغیر ہ وغیرہ) کی باتیں ماننا پڑیں گی۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ چین چونکہ دنیا میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس سے قبل روس نے امریکہ کے ساتھ جنگ کیے بغیر ہار مان لی اور آج روس ایک جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چل رہا ہے۔

سوچیں روس نے ہزاروں کی تعداد میں ایٹم بم بنانے کے باوجود امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں کہ اوراس کے معاشی، سماجی اور سیاسی نظام کو بھی اپنے ملک میں نافذ کرلیاہے۔ اسی طرح چین معاشی طور پر مضبوط ہوتے ہوئے بھی ( ہماری خواہش کے مطابق) امریکہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ چین کا سیاسی نظام تو کیمونسٹ ہے جبکہ معاشی نظام سرمایہ دارانہ ہے جو خود ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ اب چین اور پاکستان کے مفادات مشترک ہونے کے باوجود ہمارا جھکاؤ امریکہ کی جانب ہے اور گزشتہ عرصے سے امریکہ پاکستان کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہا ہے کہ اس نے پاکستان میں معیشت اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے جبکہ چین صرف ایک مخصوص مفاد کے لئے فی الوقت سرمایہ کاری کررہا ہے مگر ہماری انڈسٹری کے ساتھ کھیل بھی رہا ہے۔

اب چونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہورہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرونا کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور دنیا میں معاشی بحران جنم لے گا۔ مذہبی اختلافات کے باوجود تینوں مذاہب (یہودیت، مسیحیت اور اسلام) کے پیروکار اس بات پر متفق ہیں کہ قدرت اپنے طریقے سے دنیا کو کنٹرول کرتی ہے اور وبائی امراض قدرتی ہوسکتی ہیں جبکہ ملحدین سائنسی وجوہات پیش کرتے ہیں۔ آنے والے وقت میں ایک نئی دنیا بنے گی اور اگردنیا کے بلاکس بنتے ہیں تو ہم کہاں کھڑے ہیں کیونکہ کرونا وباءکے بحران کے بعد تمام ممالک اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مرتب کریں گے جو عالمی تجارت اور روزگار کے مواقع پر منفی طور پر اثر انداز ہوں گی۔ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کرنا ہوں گے جس سے دین اور دنیا دونوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments