نریندر مودی کا بھارت: اس سیل جنوں پر غور و فکر کی ضرورت ہے


نریندر مودی کے ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ڈانڈے تقسیم سے ملانے کے بجائے اس کے اسباب 73 سالہ جمہوری تاریخ میں تلاش کرنے چاہییں۔ ہماری جمہوری و آئینی تاریخ سب کے سامنے ہے، جس کا خلاصہ چار مارشل لا ہیں۔ اس وقت بھی ہم جو سیاسی نظام دیکھ رہے ہیں، وہ اور کچھ ہو تو ہو، جمہوریت نہیں ہے۔ ہندوستان جمہوری و آئینی اعتبار سے ہم سے بہت آگے رہا ہے۔ ہم نے آئین بنانے میں تاخیر سے کام لیا جس سے بہت مسائل پیدا ہوئے۔ 1956 میں آئین بننے کے ڈھائی سال بعد ایوب خان کا قہر نازل ہو گیا۔ دوسری طرف ہندوستان نے جنوری 1950 میں آئین بنا لیا۔ آزادی کے بعد نہرو جیسے بڑے لیڈر کا مسلسل سولہ برس وزیر اعظم رہنا بھی سیاسی نظام کی مضبوطی کا باعث بنا۔

ہم نے 1970 میں پہلے دفعہ عام انتخابات کرانے کی زحمت گوارا کی، جس کے نتیجے میں اکثریت ہم سے الگ ہوگئی۔ اس وقت تک ہندوستان میں چار عام انتخابات ہوچکے تھے اور پانچواں ہونے کو تھا۔ مارشل لا سے محفوظ رہنا، جمہوریت کا تسلسل اور مضبوط الیکشن کمیشن، یہ سب ہم پاکستانیوں کے لیے قابل رشک تھا، ہر چند کہ اس سفر کے بیچ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی بھی لگی اور فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوتے رہے۔ گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی ہوئی اور بابری مسجد کی شہادت بھی، ہاشم پورہ میں حراستی قتل کی بڑی واردات بھی اور اکیسویں صدی کے آغاز میں گجرات میں فسادات بھی۔ ایم جے اکبر بی جے پی کو تو بہت بعد میں پیارے ہوئے لیکن کسی زمانے میں بڑے جانے مانے صحافی تھے، ان کی کتاب Riot After Riot ہندوستان میں فسادات کی تاریخ بیان کرتی ہے۔ کشمیریوں پر ظلم ایک الگ دلخراش داستان ہے جس کا کوئی انت نہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ بھی ایک حقیقت ہے۔ ایک کتاب سعید نقوی نے بھی لکھی ہےBeing the Other: The Muslim in India

ہمارے یہاں تمھارے عوارض کی بنیادی وجہ جمہوریت کا نہ ہونا بتایا جاتا ہے، اس رائے کے درست ہونے میں کلام نہیں۔ آمریت کی وجہ سے سرد جنگ کا حصہ بن کر اور پرائی جنگوں کے پھٹے میں ٹانگ اڑا کر ہم نے خسارےکا سودا کیا اور اب عرصے سے جو بویا وہ کاٹ رہے ہیں اور ابھی نہ جانے کب تک کاٹیں گے۔ صرف اعتراف کرنے سے معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔ ہماری ٹیڑھی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے اور اسے ہموار کرنے کو ہم تیار نہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کا تسلسل رہا لیکن اس کے باوجود ہندوستان میں انتہا پسند کمزور تو کیا ہوتے، ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ گجرات کے فسادات میں ملوث نریندر مودی جیسا کٹر فرقہ پرست دو دفعہ ہندوستان کا وزیر اعظم بن گیا۔ اسے آپ جمہوریت اور سیکولر بندوبست کی شکست ہی قراردے سکتے ہیں۔ نریندر مودی انتخابی مہم میں پاکستان دشمنی کو نعرے کے طور پر استعمال کرتے رہے جبکہ پاکستان کی کوئی مین سٹریم سیاسی جماعت یہ راہ اختیار نہیں کرتی بلکہ ہمارے منتخب وزرائے اعظم کو ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کا سیاسی تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔ 1989 میں بے نظیر کو راجیو سے مذاکرات کی سزا بھگتنا پڑتی ہے تو دس برس بعد نواز شریف اعلان لاہور کی پاداش میں سیکورٹی رسک قرار پاتے ہیں۔ اس کے دس برس بعد آصف زرداری صدر کے منصب پر پہنچتے ہیں تو ان کے پاؤں میں نومبر 2008 کی زنجیر ڈال دی جاتی ہے.

 امن کے لیے نواز شریف کی کوششوں کو پرویز مشرف نے کارگل آپریشن کے ذریعے زک پہنچائی، اس آپریشن میں ناکامی فوجی بغاوت پر منتج ہوئی۔ حکومت میں آنے کے بعد پرویز مشرف کو ہندوستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی اہمیت کااحساس ہوا، اس ضمن میں کئی اعتماد افزا اقدامات ہوئے، خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بریک تھرو ہونے جارہا تھا کہ وکلا تحریک شروع ہو گئی۔

نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کی بنیادی وجہ ان کی ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ہے۔ پنجاب سے تعلق، ان کے لیے خطرات میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ یہی وہ مٹی ہے جہاں ہندوستان دشمنی کی جڑیں زیادہ گہری ہیں، جس کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا، لیکن نواز شریف نے اپنے حلقۂ انتخاب کو ناراض کرنے کا خطرہ مول لے کر ہندوستان سے دوستی پر اصرار کیا، حالات نے ظاہرکیا کہ اس بیانیے کا انھیں زیادہ سیاسی نقصان نہیں ہوا لیکن اس محاذ پر انھیں کمزور کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں جن کا تازہ شاہکار دفتر خارجہ کے دو سابق نابغوں تسنیم اسلم اور عبدالباسط کے حالیہ بیانات کی صورت میں سامنے آیا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کھلا راز ہے۔ ماضی کے برعکس اب اسے چھپانے کا تردد بھی نہیں کیا جاتا، ٹوئٹر کی ایجاد نے معاملہ اور آسان بنا دیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ جو تصور رہا ہے کہ ہندوستان میں سیاسی قیادت فیصلے کرنے میں مکمل آزاد ہے، درست نہیں۔ 29مارچ کو سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان نے ’ڈان ‘اخبار میں پرویز مشرف کے دور میں سیاچن کے مسئلہ کے تصفیے کے سلسلے میں ایک فیصلہ کن پیش رفت ناکام ہونے کی کہانی، ہندوستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کی کتاب سے نقل کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جوحکومت کی امن کی طرف پیش قدمی روک سکتے ہیں۔ ایسے واقعات ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کی حکومتی امورمیں مداخلت ضرور ظاہر کرتے ہیں لیکن ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ سیاسی و حکومتی معاملات میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کی طرح دخیل ہے جس کا ایک بڑا ثبوت انتخابات میں ان کی عدم مداخلت ہے جبکہ ہم بطور قوم ہنوز کسی ایسے الیکشن کی انتظار میں ہیں جس پر گہرے خاکی سایے نہ ہوں۔ ہمارے یہاں ریاستی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے رسوخ کی کوششوں کے پیچھے اس کے کارپوریٹ مفادات بھی ہیں۔

نریندر مودی کے اقتدارمیں آنے سے رجائیت پسند عاصمہ جہانگیر بھی خاصی مایوس ہوئی تھیں۔ نیرنگ گیلری لاہور میں ایک مجلس میں انھوں نے بتایا کہ’ نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت سے پہلے نواز شریف کی حکومت نے ان سے مشورہ کیا کہ وزیر اعظم کو اس میں جانا چاہیے یا نہیں؟تو انھوں نے کہا بالکل نہیں جانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ اپنے کسی نمائندہ کو بھیج دیں۔ ‘ عاصمہ جہانگیر نے اسلام آباد میں ایک مظاہرے میں مودی کو چالاک لومڑ بھی کہا تھا۔

کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ’شکریہ جناح ‘کا ہیش ٹیگ چلانے والوں کو اپنی 73سالہ تاریخ غور سے پڑھنی چاہییں تاکہ وہ جان سکیں، قائد اعظم کے پاکستان کے ساتھ ان برسوں میں کیا بیتی ہے اور ہم نے اپنے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کے حالات کی وجوہات 73سالہ تاریخ میں ڈھونڈنی چاہییں اورایسا کرتے وقت کانگریس کا کردار بھی ازسر نو دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آزادی کے بعد زیادہ عرصہ اقتدار اسی کے پاس رہا۔ کانگریس کا زوال اس واسطے پریشان کن ہے کہ اس کی وجہ سے بی جے پی نے عفریت کی صورت اختیار کرلی۔

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم 73 برس کی بداعمالیوں کو چھپانے کے لیے تقسیم کے پیچھے چھپتے رہیں گے؟ تقسیم اور فسادات کی ذمہ داری کسی ایک لیڈر پر عائد کرنے سے دل کا غبار تو نکال لیں گے لیکن یہ ڈور کو الجھا کر سرا تلاش کرنے جیسی بات ہے۔

فکر میں توازن ہو تو تحریرمیں خود بخود آجاتا ہے، سوچے سمجھے منصوبے سے تحریر میں توازن ’ڈالا‘ جائے تو پھر فاشسٹ کو فاشسٹ کہنے سے پہلے بھی سوچنا پڑتا ہے اور نریندر مودی، یوگی ادیتا ناتھ اور سبرامنیم سوامی کے زہریلے بیانات کی مذمت کے بجائے اپنے ملک کے غیر منتخب مذہبی نمائندوں کے بیانات ڈھونڈتے پڑتے ہیں۔

 خوبی کسی دشمن میں بھی ہو تو اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ پاکستان کے عوام جیسے بھی ہیں، اپنے ہیں۔ ان انھوں نے تمام تر کمیوں کوتاہیوں کے باوجود مذہبی انتہا پسندوں کو ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں نہیں پہنچایا۔ ہندوستانی عوام کسی عنواں سے سہی بہرحال اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پاکستان کے باسیوں کو جب جب موقع ملا انھوں نے جمہوریت کا ساتھ دیا اور آمریت اور مذہبی انتہا پسندوں کو رد کیا۔

ایوب خان کے مقابلے میں وہ فاطمہ جناح کی حمایت کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ووٹ دیتے ہیں۔ ضیا کی ظلمت ختم ہونے کے چند ماہ بعد سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود بینظیر بھٹوکو وزیر اعظم کے منصب پر فائز کرتے ہیں۔ پرویز مشرف پر نواز شریف کو ترجیح دیتے ہیں۔ جرنیل ریفرنڈم کروائیں تو اس پر گھر بیٹھ کر تین حرف بھیجتے ہیں اور شاعر لکھتا ہے :

شہر میں ہُو کا عالم تھا

جن تھا یا ریفرنڈم تھا

 ہندوستان کے عوام نے نریندر مودی کو منتخب کیا ہے اور ایک بار چھوڑ دو دفعہ کیا ہے، اس کا غصہ ہم خود پر کیوں اتاریں، ہمارے پاس اپنے رنج اور مصیبتیں ہی کیا کم ہیں۔ اس کا رونا کیوں نہ روئیں کہ ریاست کا کام جن عناصر کی بیخ کنی کرنا ہوتا ہے 73 برسوں سے وہ ان کی سرپرستی کر رہی ہے۔

 اپنے عزیز دوستوں کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ دنیا میں کسی بھی جگہ جبر اور اقلیتوں سے ہونے والی زیادتی پر بات کرنے کا حق اسے ہی حاصل ہے جو اپنے ملک میں بھی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہو۔ مجھے حیرت اس پر ہوئی کہ میرے بعض دوست جن کی بہادری اور عزیمت کا ذاتی طور پر قائل ہوں اور جو اپنے معاشرے میں کسی نوع کا جبر ہو خودکو خطرے میں ڈال کر اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں وہ بھی نریندر مودی کے فاشزم کی غیرمشروط مذمت کرنے کے بجائے کبھی تقسیم کے موضوع کی طرف نکل جاتے ہیں اور کبھی کوئی اور بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ میں اس سوچ سے بیزار ہوں اور اسے جبر سے چشم پوشی کے مترادف جانتا ہوں۔

ممتاز نقاد وارث علوی نے اپنے مضمون ’فسادات اور فنکار‘میں بڑی عمدگی سے ان کوڑھ مغزوں کے بارے میں بتایا ہے جو اپنے جرائم کے جواز میں جھوٹی دلیلیں تراشتے ہیں۔ چالیس سال پہلے کی یہ تحریر نریندر مودی کے ہندوستان کے لیے حسب حال ہے۔ اس سے مستعار اقتباس پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:

” یہ آج کے دور کا میکیاولی جو ہر قسم کے تخیلی، تخلیقی، روحانی اور جمالیاتی احساس سے محروم ہے، نہایت بے دردی اور بے رحمی سے اپنے فاشی تصورات کی بلی پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کو قربان کر سکتا ہے۔ اور اپنے اقدامات کے جواز میں یہ دلیل پیش کرسکتا ہے کہ ان کی موت، ان کے غلط تصورات اور غلط سیاسی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس آدمی کو ذرا غور سے دیکھو یہ جلی ہوئی بستیوں میں جاکر اشک باری نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس کا کلیجہ نہیں پھٹ جاتا کہ دو ہزار آدمی بے دردی سے مار دیے گئے۔ تین ہزار مکانات جلا دیے گئے۔ نہیں وہ ٹاﺅن ہال میں جاکر تقریر کرتا ہے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کا سبب فارسی رسم الخط اور اردو زبان، چار شادیاں، تغلق اور غوری سلاطین، سرسید احمد خان، خلافت تحریک اور برقع کی رسم میں تلاش کرتا ہے۔ اس آدمی کو غور سے دیکھو کیوں یہ آج کل بہت سی کتابیں اور مضامین لکھ رہا ہے جن میں پوری ایک قوم کی تاریخ مسخ کر کے اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسے جو کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے، وہ نتیجہ ہے اس کے پرکھوں کی حماقتوں اور انسانیت سوز حرکتوں کا۔ یہ آدمی جو آج کروڑوں انسانوں میں خوف، ناپائیداری اور بے چینی پیدا کر رہا ہے، دوسرے انسانوں کے دکھ درد محسوس کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اسے اقتدار پسندی اور سیاسی تصورات نے پاگل کر دیا ہے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments