کورونا وبا اور بے نقاب ہوتی سرمایہ داری


سرمایہ دارانہ نظام میں اشیا کی پیدوار کا بنیادی مقصد منافع کا حصول ہوتا ہے بلکہ اب اگر یوں کہا جائے کہ دنیا میں اس نظام میں شرح منافع پہ مقابلہ بازی جاری تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ اور اس مقابلہ بازی میں کرہ ارض پہ انسانی بنیادی ضروریات کی صنعت میں سرمایہ کاری کی بجائے اس کی تباہی و بربادی کی صنعت میں بے پناہ سرمایہ لگایا جا رہا تھا۔ یعنی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ ایک انجانے خوف اور دشمن کے مقابلے کے لیے سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ممکن بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

سائنسی تحقیق اور ترقی کا محور اسلحہ و بارود اور مصنوعی ذہانت کی اشیا تھیں اس کی بنیادی وجہ سرمایہ داری کا اپنی سرشت میں تخریبی ہونا ہے لیکن اس سب نے آج دنیا کو ایک ایسے مقام پہ لاکھڑا کیا ہے کہ جہاں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

اس وبا نے نیو لبرل ورلڈ آرڈر کو بری طرح بے نقاب کیا ہے اور یقیناً اس کے اختتام جس کے متعلق اس لمحے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ بعد اس ورلڈ آرڈر نے تبدیل ہونا ہے۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہو چکا ہے کہ نیو لبرل ازم کی پالیسیاں انسانوں کی زندگیوں کے لیے بہتر انداز میں کام کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہی پالیسیوں کے تحت قائم شدہ نظام صحت امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسے ترقیافتہ ترین ممالک میں اس وبا کا بوجھ برداشت کرنے میں ناکام ہو گیا۔

اس سارے پس منظر میں اگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے صحت کے نظام پہ ایک نظر ڈالی جائے تو وہ اس وبا کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا اور پاکستان کی صحت کے شعبہ کو 2018، 19 کے اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ صورتحال بنتی ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کا صحت کا سالانہ بجٹ 0.53 بلین ہے اس کے ساتھ ملک میں سرکاری ہسپتالوں کی تعداد 1279 جبکہ ان موجود بستر کی تعداد 132227 ہے جن کی مزید تفصیل کچھ یوں بنتی ہے اسلام آباد میں 2571، پنجاب 60191، سندھ 39564، کے پی 22154 اور بلوچستان میں 7747 بستر ہیں اسی طرح ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد تقریباً 220829 ہے ان اعداد وشمار کی بنیاد پہ 2018 ; 19 کے ایک سروے کے مطابق 963 افراد کے لیے محض ایک ڈاکٹر اور 1608 افراد کے لیے ایک بستر ہے۔ جبکہ ہمارے حکمران ان سہولیات میں اضافے کی بجائے ہر سال چھ مہینے بعد ایک نئے میزائل اور بارود اور اسلحہ کی جدید قسم پہ اربوں خرچ کر رہے ہیں۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو بہت ہی خطرناک صورتحال سامنے نظر آتی ہے اگر ترقی یافتہ ریاستیں اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں اور ان کے لیے انسانی لاشوں کا ٹھکانے لگانا مشکل ہو رہا ہے تو ہماری جیسی ریاست کے لیے اللہ نہ کرے ایسی صورتحال بن جائے تو کیا ہو گا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بحرانات میں ایک اہم بحران قیادت کا بحران ہے اور اس وقت امریکہ سے پاکستان تک اقتدار غیر سنجیدہ اور غیر متوازن شخصیات کے پاس ہے جو آئے روز کوئی نیا سے نیا شگوفہ چھوڑ رہے ہوتے ہیں اور ان حکمرانوں نے پہلے تو اس وبا کو سنجیدہ نہیں لیا ان امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں۔

اس وبا سے بچاؤ کا واحد طریقہ سوشل ڈسٹنسنگ ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم قوم کو لاک ڈاؤن اور کرفیو میں فرق سمجھانے اور قوم کو لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھوک سے مرنے کا واویلا مچاتے نظر آئے۔ اس وبا کے سامنے آنے کے بعد سندھ حکومت نے متحرک کردار ادا کرتے کچھ حفاظتی اقدامات کیے لیکن انھیں وفاقی حکومت کے ترجمانوں اور وزرا کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا رہا ہے اور اب لاک ڈاؤن کو نرم کرتے ہوئے کچھ شعبہ جات کو کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ موجودہ حکومت کا وبا سے لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کی کوشش کرنے اور اس کے لیے وسائل مہیا کرنے کی بجائے کنسٹریکشن انڈسٹری کو مراعات دینے کو اہم سمجھا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکمران اس وبا سے نمٹنے میں کس قدر سنجیدہ ہیں۔

نیو لبرل ازم کی معاشی پالیسیاں لوگوں سے زندگی کی آخری رمق بھی چھین رہی تھیں اور ان کے نتیجے میں پہلے ہی دنیا بھر میں غربت میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن اس وبا کے بعد غربت اور بے روزگاری میں بہت بڑی شدت کے ساتھ اضافہ ہونا ہے جو کرہ ارض پہ بسنے والے انسانوں کے لیے ایک نئی آزمائش کھڑی کرے گا جس کے نتائج پورے سیاسی نظام اور ڈھانچے کو تہہ وبالا کر دے گا ایسے میں انسانیت کے پاس واحد راستہ اس نظام کو بدل کر ایک نئے سیاسی اور غیر طبقاتی سماج کے لیے منظم جدوجہد کا راستہ ہے۔

وہی ملک اس وبا سے بہتر انداز میں مقابلہ کر پائے جو منصوبہ بند معیشت کے حامل تھے یعنی ان کی صحت اور خوراک کے معاملات ریاست کے کنٹرول میں تھے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسانوں کو بنیادی ضروریات جن صحت، تعلیم اور روزگار سرفہرست ہیں کی بلاتخصیص فراہمی منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی ممکن ہے۔ جس طرح کورونا کی وبا کا غیر طبقاتی کردار ہے اسی طرح کا غیر طبقاتی سماجی ہی ایسی وباؤں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو ایک وبا نے ہر خاص و عام کے سامنے بے نقاب کر رکھ دیا ہے۔ اب تمام سنجیدہ حلقوں میں اس نظام کے متبادل کے طور پہ نظام کی بحث زور پکڑے گی جو اس سماج میں بدلاؤ پہ منتج ہونی ہے اور انسانیت کو سوشل ازم کے سوا کوئی دوسرا نظام بچا نہیں سکتا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments