ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے


آج ایک مہینے بعد مجبوراً سوسائٹی سے باہر نکلنا پڑا۔ سڑکوں پہ رواں دواں ٹریفک دیکھ کر انتہائی مایوسی اور آنے والے کچھ دنوں سے خوف بھی محسوس ہوا۔ عوام اور حکومت دونوں ہی کرونا وائرس کی وباسے نمٹنے کے لیے انتہائی غیر سنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ عوام میں ان دیکھے خطرے کو سمجھنے اور احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت مفقود نظر آتی ہے۔
‏اگر پاکستان میں مغربی ممالک کی طرح کرونا نہیں پھیلا تو اس میں کرونا کی اپنی کوئی مرضی ہوگی وگرنہ بحیثیت قوم ہم سب نے اس کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اورمیری ناقص رائے کے مطابق حکومت اب ”لوگ مریں گے تو ہی احتیاط برتیں گے“ کی پالیسی پہ عمل پیرا ہو چکی ہے۔

بھوک سے بچنا آسان اور کرونا سے بچنا مشکل ہے یہ بات ریاست بھی سمجھتی ہے لیکن ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ عوام کو کروناکاخطرہ سمجھانا یا اس کا احساس دلانا تھوڑا مشکل بھی ہے اور وقت بھی زیادہ درکار ہے۔ اس وقت با اختیارریاست کو اپنا کردار ادا کرنے کی شدید ضرورت ہے،

ریاست کے پاس صرف دو آپشن ہیں،
1۔ عوام کو گھروں میں بند کر کہ کرونا سے بچا یا جائے

2۔ لاک ڈاون نہ کیا جائے اور عوام کو معمول کے مطابق چلنے دیا جائے۔

پہلا آپشن استعمال کرنے کی صورت میں کاروبار، مارکیٹیں، فیکٹریاں سب بند کرنی تھیں۔ ان حالات میں ریاست کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑتی ہے کہ عوام کو بھوک سے نہ مرنے دیا جائے۔

حکومت نے پہلا آپشن استعمال کرنے کی بجائے دوسرے کو ترجیح دی اور ساری ذمہ داری عوام پہ ڈال دی کہ اپنا پیٹ بھی پالے اور کرونا سے بھی بچے۔

خدارا لوگوں پہ اتنی بھاری ذمہ داری نہ ڈالی جائے، ہم معیشت کو تو دوسری زندگی دے سکتے ہیں مگر کسی انسان کو نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments