کرونا کے بعد خوراک کا مسئلہ



جیسے ہی کرونا کا خطرہ پیدا ہوا، خوراک کی عدم دستیابی کا خوف شدت اختیار کر گیا۔ سماجی فاصلے سے پہلے، ورک فرام ہوم سے پہلے، لاک ڈاؤن سے پہلے، ہر کوئی خوراک کی فکر میں پڑ گیا۔ مارکیٹ میں اچانک بنیادی خوراک کی کمی واقع ہو گئی، ہر کسی کو قریبی کسان اور کھیت یاد آ گیا۔ دنیا بھر نے ایک ساتھ بھوک کے خوف کو محسوس کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی ترجیحات کا اندازہ بھی ہوا اور ہم جان گئے کہ اعلی لباس، شاندار موبائل فون یا رفیع الشان گھر سے زیادہ اہم بنیادی خوراک کی تسلسل کے ساتھ دستیابی ہے۔ جرمنی میں جنگ کا مشاہدہ کرنے والے بزرگوں میں خوراک کی عدم دستیابی کا خوف اس قدر پختہ ہے کہ وہ ہمیشہ گھروں میں مہینے بھر کا سامان رکھتے ہیں۔

کرونا سے پیدا ہونے والے لاک ڈاؤن میں خوراک کا بحران شدت اختیار کر گیا اور کرونا کے بعد یہ مزید شدید ہو جائے گا۔ اس بات کو بہتر انداز میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ خوراک کا بحران یقینی تھا لیکن کرونا کی وجہ سے تیزی سے آن پہنچا۔ اس کی بنیادی وجوہات تین تھیں، ایک تو بڑھتی آبادی کی خوراک، لباس و رہائش کی ضروریات اور سکڑتے کھیت جو تیزی سے رہائشی آبادیوں کا حصہ بن رہے ہیں، زمینی مسائل کی نذر ہو رہے ہیں۔

دوسری وجہ کھادیں بنانے کے لئے درکار خام مال کے قدرتی ذخائر کا ختم ہونا، تیسری وجہ موسمیاتی تبدیلیاں جو ایک طرف فصلوں کو برباد کر رہی ہیں دوسری طرف نقصان دہ کیڑوں و بیماریوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ اب کرونا کے لاک ڈاؤن سے سبزیات و پھلوں کی فصلیں منڈی تک نہیں پہنچ سکیں، آمدن نہیں ہوئی، کسانوں کے پاس دوسری فصل کے لئے مالی وسائل نہیں ہیں۔ گندم کی فصل بے موسمی بارش کی نذر ہو گئی۔ جو خوراک مارکیٹ میں موجود تھی وہ تیزی سے خرید کر گھروں میں جمع کر لی گئی جہاں سٹوریج کا باقاعدہ انتظام نا ہونے کی وجہ سے بہت کچھ ضائع ہو جائے گا۔

زیادہ خوراک کی موجودگی نفسیاتی طور پر زیادہ کھانے پر آمادہ کرتی ہے جس سے صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں اور خوراک کی منصفانہ تقسیم میں رکاوٹ آتی ہے۔ اس لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی کمی نے بھی کسانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا، زیادہ مزدوری دے کر کام کروانے سے پیداواری لاگت تو بڑھ گئی لیکن قیمت فروخت وہی برقرار ہے۔ منافع پہلے بھی نہیں تھا لیکن اب خسارہ بڑھ جائے گا۔ یقینی طور پر پہلے سے زیادہ کسان کھیتوں کو چھوڑ کر شہر کا رخ کریں گے جہاں کچھ نا کچھ آمدن ضرور ہو گی، خسارہ نہیں ہو گا۔ چوبیس گھینٹے کھیت کی فکر ختم آٹھ گھنٹے کی دیہاڑی اور پھر آرام۔ اس سال اناج کا بحران یقینی ہے اور اناج کی غیر قانونی برآمد کی وجہ سے شدید کمی کا سامنا ہو گا۔ کرونا تو ہفتوں، مہینوں میں چلا جائے گا لیکن خوراک کے مسائل مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔

ان مسائل کے کئی ممکنہ حل ہو سکتے ہیں لیکن میری نظر میں اس کا بہترین حل میرا اپنا پیش کردہ ”سمارٹ فارم“ آئیڈیا ہے۔ میرا آئیڈیا کچھ یوں ہے کہ چھوٹے کسانوں کے کھیتوں کو تکنیکی مہارت کے ساتھ اس انداز میں بانٹا جائے کہ وہ اپنی خوراک کی بیشتر ضروریات کم سے کم وسائل کے ساتھ خود پوری کر سکیں اور اضافی پیداوار مقامی آبادی کو فروخت کریں۔ اسی طرح کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے۔ اس طرح کئی کسان مل کر اپنی اور قریبی آبادی کی ضروریات پوری کر سکیں گے۔ بڑے کسانوں کے کھیت کمرشل زراعت کے فرائض سر انجام دیں۔ سمارٹ فارم آئیڈیا کے مطابق جب ہر گاؤں اور محلے میں درجنوں کچن گارڈنز اور فوڈ ٹاورز ہوں گے، قریب ہی سمارٹ فارمز ہوں گے جہاں پھل، سبزی، انڈے، دودھ، گوشت میسر ہو گا، تو خوراک کا حصول بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments