کووڈ 19 کے دنوں کے لیے ریڈ انڈین فلسفے اور نصیحت سے زندگی کے لیے سبق


یہ سچائی ہے کہ کورونا کی وبا نے تمام دنیا میں دکھ اور تکلیف پھیلائی ہے جس سے لوگوں کا روزگار، کاروبار، زندگی گزارنے کے طورطریقے سبھی کچھ منفی طور پر متاثر ہوا ہے۔ ریڈ انڈین قبائل اس مشکل وقت میں انفرادیت سے ہٹ کر معاشرتی بھلائی کے اقدام کا سبق دیتے ہیں۔ وہ اس موقع پر تاریخ کے سبق کو یاد ضرور کررہے ہیں جس میں ان کو جان بوجھ کر بیماریوں اور معذوری میں مبتلا کیا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ بات واضح طور پر بیان کی ہے کہ نہ ہی یہ وائرس انسان کی ایجاد ہے اور نہ ہی اس کو ریڈ انڈین قبائل کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی ریڈ انڈین آبادی میں صحت سے متعلق تعلیم و تربیت اور سہولیات کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ کورونا کی وبا سے متاثر ہوکر موت اور بیماری کے خطرے میں ایک اوسط امریکی سے بڑھ کر ہیں۔

پچھلے سال میں نے اینتھریکس کی نئی ویکسین کے کلینکل ٹرائل میں حصہ لینے کے بارے میں لکھا تھا۔ نارمن کا لن انسٹیٹیوٹ کورونا وائرس کے کلینکل ٹرائل میں حصہ لینے کی تیاری کررہا ہے اور جب وہ یہاں پہنچی تو میں وہ بھی ضرور لگوا لوں گی۔ اور جن شہروں اور علاقوں میں پہنچے تو ان کو بھی ضرور لگوالینی چاہیے۔ ویکسین کی سائنس بہت ترقی کرچکی ہے اور یہ جدید ویکسینیں کافی محفوظ ہیں۔ ویکسینوں کے بارے میں یہ افواہیں غلط ہیں کہ ان سے آٹزم یا دیگر کوئی بیماریاں ہوجاتی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا میں ہم سب کے لیے یہ سبق ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔

ریڈ انڈین فلسفے کے مطابق خوف و ہراس سے انسانی جسم کا مدافعتی نظام متاثر ہو سکتا ہے جو کہ سائنس کی رو سے ثابت ہے، وہ اپنے قبائل کو اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کو سہارا دینے اور اپنی قدیم روحانی روایات میں سکون تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مقامی جڑی بوٹیوں کو جلا کر اس کا دھواں بنانا اسی طرح ان قبائل میں مقبول ہے جیسے جنوب ایشیا میں اگر بتیاں جلانا۔ دعاؤں اور عبادات کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ وہ انسانوں کو پریشانی سے نجات فراہم کریں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس طرح خود کو اس روحانیت سے جوڑ رہے ہوں۔ مذاہب کا دوسرے انسانوں کی زندگی پر قبضہ جمانے کی کوشش کے بجائے یہی کام ہونا چاہیے کہ وہ انسانوں پریشانی کے وقت امید، مرکز اور سکون دیں۔

ریڈ انڈین اپنے آبا و اجداد کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہوئے یہ بات یاد رکھتے ہیں کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں زندہ رہنے کے لیے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی معلومات پر انحصار کیا تھا۔ اپنی روایات اور روحانیت کے بغیر شاید وہ مکمل طور پر مٹ چکے ہوتے۔ کورونا۔ 19 کی وبا کی وجہ سے سماجی دوری کے دوران یہ قبائل اپنے قدیم روحانی علاج، کھانے پکانے کے طریقے اور مقامی جڑی بوٹیوں کے بارے ایک دوسرے سے سیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس کا مطلب جدید تعلیم کو ٹھکرانا نہیں ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ریڈ انڈین مذاہب، زندگی گزارنے کے طریقے اور ان کا فلسفہ ابراہیمی مذاہب سے کہیں زیادہ روشن خیال ہیں۔ وہ خیالی نہیں بلکہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا کے مشاہدے پر مبنی ہیں۔

کورونا۔ 19 کی وبا کے دوران ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں اس مشکل وقت میں سب سے بہترین لیڈرشپ دیکھی گئی وہاں خواتین حکمران ہیں۔ ریڈ انڈین سماج پدرانہ نہیں بلکہ مادرانہ ہے جس میں صدر ٹرمپ کی طرح خود پرست رہنمائی کے بجائے خاندان کے تمام افراد کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ سماجی دوری ریڈ انڈین معاشرے میں ایک مختلف سوچ ہے کیونکہ وہ مل جل کر رہتے ہیں۔ لیکن اپنے خاندانوں کی بھلائی کے لیے وہ جدید سائنسی اور طبی معلومات پر اعتبار کرتے ہوئے اپنی طرف سے تمام کوشش کررہے ہیں۔

ریڈ انڈین قبائل نے اس عالمی وبا کے وقت اپنے آبا و اجداد سے سیکھے ہوئے اسباق کی مدد سے تیل کی ماحول تباہ کرنے والی ٹیکنالوجی پر انحصار کیے بغیر صاف توانائی استعمال کرتے ہوئے اپنی خوراک کی بنیادی ضروریات میں خود مختار بننے کا عہد کیا۔

دنیا کے تمام افراد کے لیے یہ سوچنے کا وقت ہے۔ انسان طوفان، سیلاب، زلزلے، جنگ اور بیماریاں سہتے آج یہاں تک کیسے پہنچے؟ زندگی میں کیا اہم ہے؟ ایک سروے کے مطابق موت کے بستر پر موجود انسانوں کی سب سے بڑی خلش یہ تھی کہ کاش انہوں نے اتنی محنت سے کام نہ کیا ہوتا۔ اپنے اردگرد نظر دوڑا کر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کتنی ساری پلاسٹک کی بے کار چیزیں ہیں جن کے بغیر بھی اچھی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی ان کے بغیر مر نہیں جائے گا۔ یہ اس صدی کا وہ لمحہ ہے جو ہمیں سکھاتا ہے کہ کس طرح بہادری سے ہمیں اس مشکل وقت کا سامنا کرنا ہے، ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے اور دنیا کے مستقبل کے لیے بہتر فیصلے کرنے ہیں تاکہ آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے بہتر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments