عالم گیر وبا کے عالمی تقاضے



دنیا بھر میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے تناظر میں سماج اور معیشت دونوں کو شدید چیلنج در پیش ہیں۔ وبائی بحران اس وقت انسانیت کے لیے ایک ایسی کٹھن آزمائش ہے جس پر قابو پانا نا گزیر ہو چکا ہے اور مزید تاخیر کی صورت میں بھیانک نتائج بھگتنا ہوں گے۔ کورونا وائرس کووڈ۔ 19 نے مختلف ممالک اور خطوں کو سنگین طور پر متاثر کیا ہے اور امریکا سمیت ترقی یافتہ مغربی ممالک میں نظام کی کم زوری اور آپسی سیاسی اختلافات بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔

مستقبل میں یورپی یونین کی اتحاد و یک جہتی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یورپی ممالک اب تک وبا کے سامنے مشترک لائحہ عمل اپنانے سے قاصر ہیں اور نا ہی انسداد وبا سے متعلق ایک دوسرے کی امداد و تعاون دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صرف اپنے شہریوں کا تحفظ ہی ہر ملک کی اولین ترجیح ہے۔ امریکا میں ہلاکتوں اور متاثرہ مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافے کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید محاذ آرائی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔

امریکی میڈیا ادارے مسلسل صدر ٹرمپ کے زیر عتاب ہیں، جب کہ امریکی صدر نے چین کے ساتھ ساتھ اپنی توپوں کا رخ اب ڈبلیو ایچ او کی جانب کر دیا ہے اور عالمی ادارے کی امداد بھی معطل کر دی ہے۔ امریکی میڈیا ملک میں کورونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ کو صدر ٹرمپ کی بد ترین ناکامی اور ٹرمپ انتظامیہ کی نا اہلی قرار دے رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے علاوہ ترقی پذیر ممالک میں بھی وبا کے باعث قیادتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور متفق موقف اپنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں کہا جا سکتا ہے کہ وبائی صورت حال نے عالم گیر سطح پر صحت عامہ اور سلامتی سے متعلق نظام کو بری طرح بے نقاب کیا ہے اور موجود نقائص اور شدید خامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔

عالم گیر وبا کے سدباب کے لیے اگر چند اقدامات کی بابت بات کی جائے تو اس وقت عالمی سطح پر ”لاک ڈاون“ کے خاتمے یا نرمی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے جب کہ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں انسداد ی اقدامات میں نرمی کا فوری فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ چین کا شہر ووہان لاک ڈاون کا ایک کام یاب ماڈل ہے کیوں کہ یہاں 76 روز تک مسلسل لاک ڈاون کے بعد انسداد وبا کی بہتر صورت حال اور مثبت پیش رفت کے بعد ہی شہر کو دوبارہ کھولا گیا ہے۔

لاک ڈاون کے دوران میں عوام کی آمد ورفت معطل ہو جاتی ہے اور سماجی فاصلے اختیار کرنے سے وبا کا پھیلاؤ موئثر طور پر روکا جا سکتا ہے۔ ووہان میں لاک ڈاون کے دوران میں ایک مربوط نظام کے تحت یومیہ اشیائے ضروریہ اور طبی ساز و سامان پہنچایا گیا۔ جب کہ انسداد وبا کے لیے نگرانی، آئیسولیشن، نگہ داشت اور علاج معالج کا ایک قابل تقلید طریقہ کار وضع کیا گیا۔ لیکن لاک ڈاون کا فارمولہ تبھی کام یاب ہو سکتا ہے جب عوام حکومت کا بھرپور ساتھ دے۔ اکثر یورپی ممالک میں پولیس کی جانب سے با شعور عوام کو تفریحی مقامات پر یہ باور کروانا پڑا کہ لاک ڈاون کا مطلب تفریحی مقامات کا رخ کرنا ہرگز نہیں ہے۔

اسی طرح عوامی مقامات پر ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دینے سے بھی حوصلہ افزا نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے شہری بھی ماسک کے استعمال سے کتراتے ہیں جو قطعاً مناسب نہیں ہے۔ اس حوالے سے تو ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ ماسک کا استعمال ایک فرد کو وائرس کے خطرے سے بچانے میں کافی حد تک مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ وبائی صورت حال کے تحت عائد پابندیاں اٹھانے کے بعد بھی بازاروں، تجارتی مراکز، پبلک ٹرانسپورٹ، طبی و تعلیمی مراکز سمیت ایسے تمام اداروں میں ماسک کی پابندی کو لازمی قرار دیا جائے جہاں عوام کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے۔

انسداد وبا کے حوالے سے متاثرہ افراد کی فوری تشخیص اور آئیسولیشن انتہائی اہم ہے لیکن اکثر ممالک میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے اور متاثرہ فرد سے دیگر افراد تک وائرس کی منتقلی تیزی سے جاری رہتی ہے۔ یہاں ملک کے بائیو ٹیک اور تحقیقی اداروں کا کردرا انتہائی اہم ہے اور عوامی رویے بھی۔ جان بوجھ کر علامتی معلومات چھپانے کا رحجان بھی اکثر دیکھا گیا ہے جس کی حوصلہ شکنی لازم ہے۔ میڈیا اس ضمن میں عوام کو آگاہی دے سکتا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدانخواستہ آپ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ معلومات چھپانے سے آپ اپنے اہل خانہ اور آس پاس دیگر کئی افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اسپتالوں کے آئیسولیشن مقامات پر طبی عملے کو مخصوص حفاظتی ملبوسات کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی بھی ایک لازمی چیز ہے، کیوں کہ طبی عملہ انسداد وبا میں ایک مضبوط ڈھال ہے جس کا تحفظ ضروری ہے۔

جب ہم چین کے کام یاب ماڈل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو انسداد وبا کی کوششوں میں ایک اہم پہلو ”ہیلتھ ڈیٹا بنک“ بھی رہا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہر ایک شخص کی جسمانی صحت سے متعلق معلومات کو یک جا کیا گیا مثلاً اُس کی سفری معلومات، قیام گاہ کا پتا، یومیہ ٹمپریچر، علامات اور دیگر معلومات وغیرہ۔ اس بنیاد پر فوری عملی اقدامات کیے گئے اور قیمتی جانیں بچائی گئیں۔ پاکستان میں رضا کاروں کی مدد سے یہ اعداد و شمار ترتیب دیے جا سکتے ہیں، ووٹر لسٹیں بھی موجود ہیں اور عوامی نمایندے اپنے اپنے حلقوں میں موثر طور پر ڈیٹا بنک کی تشکیل میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی بھی انسداد وبا کا اہم اور موئثر تقاضا ہے۔ چین میں وبا کی روک تھام و کنٹرول کے لیے 5 G، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹس، ڈرون اور دیگر جدید معیار اپنائے گئے جسے سے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوئے۔ اس ضمن میں متعدد ممالک کے طبی اور تکنیکی ماہرین کے درمیان مسلسل تبادلہ اور تعاون لازم ہے، تا کہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علاج  سے متعلق معلومات کے تبادلے سے وائرس کا راستا روکا جا سکے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اکثر پاکستانی جامعات میں طلبا کی جانب سے تحقیقی کاوشیں سامنے آ رہی ہیں۔

وبا کی سنگین صورت حال میں عوامی شمولیت، فتح کی بنیاد ہے۔ پاکستان جیسے گنجان آباد ملک میں عوام کو ”آئیسولیشن“ کے نظریے کی حقیقی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ حکومت رہ نما ہدایات جاری کر سکتی ہے لیکن عمل در آمد عوام کی ذمہ داری ہے۔ اس بات کا ادراک لازم ہے کہ ایک متاثرہ فرد کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب ہو سکتا ہے، ایسا ہرگز مت سوچیں کہ میرے گھر سے باہر نکلنے سے کیا ہو جائے گا۔ لازم نہیں کہ آپ وائرس سے متاثر ہوں، مگر یہ اندیشہ ضرور ہو سکتا ہے باہر آپ وائرس کا شکار ہو جائیں لہذا اپنی سلامتی اور اپنے پیاروں کے تحفظ کے لیے کچھ عرصے خود پر جبر کرتے ہوئے ”آئیسولیشن“ میں رہنے کی پالیسی اپنائیں، تا کہ جس طرح چینی عوام نے نظم وضبط سے ایک قلیل مدت میں نوول کورونا وائرس کو شکست دی، بالکل اسی طرح پاکستان سے بھی خوف کی یہ پرچھائیں ہمیشہ کے لیے دور ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments