ماسک اور ”سیاستِ ماسکی“۔


دنیا بھر میں کرونا وائرس کے ایشو کی وجہ سے ”ماسک“ نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے۔ ماسک کی اسی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ”صحیح ماسک کے استعمال، ماسک کے صحیح استعمال، اور صحیح کام کے لئے ماسک کے استعمال“ کی طرف مختلف حوالوں سے سوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کرونا وائرس سے بچنے کے لئے ماسک استعمال کرنے کا فائدہ اصل معنوں میں تبھی ممکن ہے جب اس کا استعمال اصولوں کے مطابق ہو۔ اول تو طبی نقطہ نظر سے عرض ہے کہ ماسک وہی استعمال ہو جو میڈیکل ماہرین کی تجاویز کے مطابق ہو۔ یعنی معروف سرجیکل ماسک اور میڈیکل شعبوں میں استعمال کیے جانیوالے دیگر اقسام کے ماسک، نا کہ ڈسٹ اور سردی سے بچاؤ کے لئے استعمال ہونے والے گرم ماسک۔

دوسرا یہ کہ سرجیکل ماسک کے استعمال کے اصول کیا ہیں ؛ یہ جاننا بھی اہم ہے۔ اس بابت ڈاکٹرز اور ایکسپرٹس بتاتے ہیں کہ مثلاً جب گھر سے نکلتے وقت جو ماسک آپ استعمال کرنے لگے اسے واپسی پر اتار کر تلف کردے۔ چونکہ مسلسل سانس لینے سے اس میں جراثیم جمع ہوجاتے ہیں، خدانخواستہ اگر کسی وائرس زدہ فرد سے قریبی تعلق بننے پر وائرس آپ کی طرف منتقل ہونے کا اندیشہ ہوا تھا تو عین ممکن ہے کہ وائرس ماسک تک پہنچا ہو مگر آپ کے نظام تنفس تک نہیں، آپ کے مسلسل سانس لینے کے سبب پیدا ہونے والی حرارت سے وائرس مر بھی نہیں جاتا، بلکہ ماسک سے لگا رہ جاتا ہے، سو اس ماسک کو تلف کرنا لازمی ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی ماسک ہے جو دن بھر پہن کر ادھر ادھر گھومنے کے بعد گھر پہنچ جائے تو اتار کر محفوظ کرلیتے ہیں، اور اگلی بار، بلکہ بار بار، مطمئن ہوکر اسی استعمال شدہ ماسک کو دوبارہ استعمال کرلیتے ہیں۔

ماسک کے استعمال کے حوالے سے ایک اور بات قابل غور ہے کہ ہمارے علاقے میں کچھ طبقوں کی طرفسے ماسک کو بطور ”سیاسی ٹول“ کے استعمال کرنے کا مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں ”فی ماسک ایک سیلفی“ کا دور دورہ ہے۔ بازاروں اور دور دراز علاقوں میں سرجیکل ماسک کے ساتھ کپڑے کے بنے سادہ ڈسٹ (گرد و غبار) روکنے والے ماسک تقسیم کیے جانے کی تصویریں ہر جگہ گردش کررہی ہیں، ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر واہ واہ اور شاباشی کے لمبے لمبے سلسلے چل رہے ہیں۔

ضروری اور غیر ضروری ماسک کو سماجی خدمت کی اعلیٰ مثال بنا کر پیش کرنے والوں میں عام افراد ہی نہیں بلکہ بہت اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی شامل ہیں۔ عین ممکن ہے اگلے چند مہینوں میں جب الیکشن قریب تر ہوگا تب تقسیم شدہ ماسک کی تعداد کا مقابلہ بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جائے۔ اس طرح سمجھنے پر مجبور ہوں کہ ماسک کے صحیح مقصد کے لیے استعمال کا یہ ایک فائدہ مند طریقہ کار ہے جس سے طبی لحاظ سے فائدہ ہو نا ہو، ”فی ماسک ایک سلفی“ والے سیاست دانوں کو سیاسی فوائد یقیناً حاصل ہوسکتے ہیں۔

ماسک کی کوالٹی اور استعمال کے حوالے سے البتہ چند دیگر حقایق بھی دلچسپی کی خاطر ضبط تحریر میں لانا مناسب رہیگا۔ اول، سرجیکل ماسک کے استعمال اور بار بار استعمال کی بابت ہم اس مجبوری کو سمجھ سکتے ہیں کہ چونکہ مارکیٹ سے عام افراد کے لیے بار بار سرجیکل ماسک خریدنا ممکن نہیں، اور جن کے لیے خریدنا ممکن ہے ان کے لئے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہی نہیں۔ لہذا اپنی ذاتی استعمال میں رہنے والے سرجیکل یا ضروری ماسک کو دوبارہ استعمال کرنا زیادہ معیوب عمل نہیں لگتا۔

دوسرا معاملہ ڈسٹ ماسک یا عام الفاظ میں کپڑے کے سلے دیسی ماسک کا ہے۔ اس قسم کے ماسک بھی دوسرے معیاری، سرجیکل اور ڈاکٹرز کی طرف سے تجویز کردہ ضروری ماسک کی عدم دستیابی کی صورت میں ”دل کے بہلانے کے لئے مجبوراً پہننا پڑتا ہے“۔ ایک جواز یہ بھی ہے کہ اگر آپ گھر سے باہر کسی ضروری کام سے جا رہے ہوں اور منہ کسی چیز سے ڈھانپا ہوا نہ ہو تو ایسے میں سیکیورٹی اسٹاف کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں، اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر بھی اس کا پہننا لازم ہے۔ وگرنہ میڈیکل ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ کپڑے کے ماسک سے جراثیم یا وائرس کا پانچ فیصد بھی نظام تنفس تک پہنچنے سے نہیں رکتا۔

اسی کپڑے کے ماسک کے حوالے سے ایک اور زاویہ فکر بھی ہے۔ وہ یہ کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کو بھی وائرس کی وجہ سے دیگر میڈیکل ٹولز، وائرس سے جاں بحق ہونیوالوں کے لئے قبروں کی جگہ، اور میڈیکل اسٹاف کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق ماسک کی قلت کا بھی سامنا ہے۔ امریکا تو لبرل دنیا کی اصطلاح میں سوپر پاور ہے، اس لیے اس نے دیگر بعض ممالک کو بطور امداد بھیجے جانیوالے ماسک اور دیگر طبی آلات کو لوٹ لیا، مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایسی بدمعاشی اور غیر قانونی حرکتوں کے باوجود بھی یہ اپنی ضرورت پوری نہیں کرسکا۔

لہذا صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ جن لوگوں کو ماسک میسر نہیں وہ اسکارف استعمال کرکے یا کچھ اور طریقے سے اپنے منہ ڈھانپ لیا کریں۔ چونکہ امریکی صدر اور امریکہ کے اندر رائج کام بہت سے ”ماڈرن اور تعلیم یافتہ افراد“ کے لئے مثالی ہوا کرتا ہے، اس لیے کپڑے کے ماسک، اسکارف، مفلر سمیت کسی بھی کپڑے سے منہ ڈھانپ کر کرونا وائرس کو ڈرانے کی کوشش کرنے پر تنقید کی تُک نہیں بنتی، خواہ میڈیکل سائنس کے ماہرین جتنی بھی دلیلیں پیش کرتے رہیں۔

سو ہم بغیر کسی لیت و لعل کے ایسے تمام افراد، تنظیموں، اداروں اور رہنماؤں کو داد دیتے ہیں جو اس کرونا وائرس کے زمانے میں سیلفیوں سمیت یا بغیر سلفیوں کے ماسک تقسیم کرنے کی سماجی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ گزارش کرتے ہیں کہ ایک ایک مرتبہ انتخابی حلقے کے افراد میں دس پندرہ روپے والے ماسک نہیں بلکہ ضرورت مند خاندانوں کی دیگر ضروریات کے لئے بھی اقدامات اٹھانے کے لئے کوششیں کی جائے۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، کیا ہی بات ہوگی اگر کوئی محنت کش مزدور، نادار، بے سہارا، اور ضرورت مند فیملی کے افراد پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سوجایا کریں، ان کی افطاری کے دستر خوان پر آپ کی پہنچائی گئی اشیا ہوں، جنہیں پاکر یقیناً ان کے منہ سے آپ کے لئے دعائیں ضرور نکلا کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments