جانوروں کی بغاوت


کورونا وائرس وبائی صورت اختیار کرگیا تو حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا دیا۔ ہمارا شہر بھی ملک کے دیگر شہروں کی طرح مکمل طور پر بند کرادیا گیا۔ بازار، مارکیٹس، شاپنگ مال، اسکول، کالج، پارکس وغیرہ سب کے سب بند کردئے گئے۔ لوگوں نے باہرنکلنا چھوڑ دیا۔ گھر بند ہونے کی وجہ سے گلیاں، سڑکیں، روڈ سب سنسنان ہوگئے۔ شہر میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ بچے، بڑے، خواتین، مرد سبھی خوف میں مبتلا تھے۔ یہ کیا ہوگیا۔ کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔

میں بات ایک اور واقعے کی کر رہا ہوں۔ اس واقعے سے پہلے لوگ اکا دکا باہر نکل رہے تھے۔ لیکن پھر کوئی گھر سے نکلا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں۔ ٹھہریں۔ آپ کو سب معلوم ہوجائے گا۔ یہ واقعہ کورونا وائرس کی وبا سے ہی جڑا ہوا ہے۔ یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ سب نے گھروں سے نکلنا کیوں چھوڑ دیا۔ خود میں بھی ایسے لوگوں میں شامل تھا۔ میں نے تو گھر کے اندر سے دروازے کو تالا بھی لگادیا تھا۔

ہوا کچھ یوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہر کے سب سے بڑے چڑیا گھر میں ملازمین نہیں آئے اور جانور بھوکے رہ گئے۔ یہ سلسلہ دو روز تک چلا۔ بھوک کی وجہ سے ایک خرگوش مر گیا۔ جس پر چڑیا گھر کے جانوروں میں افراتفری پھیل گئی۔ ہاتھی، شیر، چیتے، ریچھ، بھیڑئے، بندر، مکاؤ طوطے، الو اور باز سمیت سب جانوروں نے عجیب عجیب سی آوازیں نکالیں اور آسمان سر پر اٹھا لیا۔ جیسے ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہوں۔ اور پھر ایک بندر نے چالاکی سے خود کو پنجرے سے باہر نکلا اور پھر سب جانوروں کو بھی آزاد کردیا۔

پنجروں سے آزاد ہوکر تمام جانور چڑیا گھر کے وسط میں واقع ایک بڑے پارک میں جمع ہوگئے۔

پورا میدان خونخوارجانوروں، چرند اور پرند سے بھر گیا۔ جو کبھی ایک گھاٹ سے پانی نہیں پیتے تھے انہیں آج کسی سے کوئی خوف نہیں تھا۔

چمے گوئیاں شور شرابے میں بدل گئیں۔ اچانک ایک گرجدار آواز گونجی اور سارا مجمع خاموش ہوگیا۔ یہ آواز ببر شیر کی تھی۔ وہ کہنے لگا ”ہم پنجروں سے باہر ایک وجہ سے نکلے ہیں۔ انسانوں نے ہمارے ساتھ زیادتیاں کیں ہیں، ہمارے جنگل اور قدرتی ماحول چھینے، ہمیں پنجروں میں قید کیا اور ہماری جانوں سے کھیلے۔ “ وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہنے لگا ”انسانوں نے ہمارا ہمیشہ استحصال کیا ہے۔ ہمارا شکار کیا، ہمیں ہلاک کیا، ہمیں پنجروں میں قید کرنے کے بعد ہم کو کھانا بھی نہیں دیا۔ خود پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔ لیکن ہمیں ایک ایک نوالے کے ترسایا۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں۔ “

شیر چپ ہوا تو مجمع سے ایک کے بعد ایک آواز آنے لگی۔ چیتے نے کہا کہ ”جب ہم پنجروں سے باہر نکل آئے ہیں تو کیا ہمیں ان انسانوں کو سبق نہیں سکھانا چاہیے۔ ہم خود پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب نا چکتا کریں؟ “

چیتا چپ ہوا تو خرگوش بولا جو (غالباّ مرنے والے خرگوش کا رشتہ دار تھا ) ”انسانوں کو قتل کردینا چاہیے“
وہ اپنا جملہ پورا نہ کر پایا کہ اس کی بات کو ریچھ نے کاٹتے ہوئے کہا ”نہیں ہم ایسا نہیں کریں گے۔ پھر ہم میں اور انسانوں میں کیا فرق رہے گا۔ “

ہاتھی نے کہا الو سب سے ذہین ہے۔ وہ ہی ہماری رہنمائی کرے گا۔ یہ بات سن کر سب خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
پھرہاتھی نے الو سے مخاطب ہوکر کہا ”آپ سب سے عقلمند ہیں، آپ ہی بتائیں ہم کیا کریں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ہم نے انسانوں کو چھوڑنا نہیں ہے۔ “

ہاتھی کی بات سن کر الو کہنے لگا ”ہم مجمع میں سے پانچ ذہین جانوروں کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بناتے ہیں۔ جو ساری صورتحال پر غور کرنے کے بعد اپنا منصوبہ اور حکمت عملی بیان کرے۔ “ الو نے ایک لمحے کو رکنے کے بعد پھر گویا ہوا ”یہ اعلیٰ سطحی کمیٹی شیر، چیتے، ہاتھی، چیمپینزی اور مگرمچھ پر مشتمل ہوگی۔ یہ جو بھی فیصلہ کرے گی اسے سب جانور مانیں گے اوراس پرعمل کریں گے۔ کوئی بھی فیصلے کے خلاف نہیں جائے گا۔ “

ذہین الو کی بات سن کر سب نے زور زور سے ہاں کہا اور نعرے لگائے۔

میٹنگ الو کی صدارت میں ہوئی جس میں متفقہ طور پر بغاوت کے ذریعے شہر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پندرہ منٹ میں اعلیٰ سطحی کمیٹی نے اپنا فیصلہ مجمع کو سنا دیا۔ سب نے فیصلے کی تائید کی۔

الو نے پیش قدمی کرنے سے پہلے تمام جانوروں، چرند اور پرند سے کہا کہ ”ایک ہم یہاں چڑیا گھر میں ہیں، دوسرے اس سے باہر ہیں۔ جیسے گائے، بکریاں، بھیڑیں، کتے، بلیاں، طوطے، کبوتر، مرغیاں اور کئی دوسرے جانور جنہیں انسان نے پالتو بنایا رکھا ہے۔ یہاں سے باہر نکلتے ہی ان کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔

تمام جانور شیر، چیتے، ہاتھی، چیمپینزی اور مگر مچھ کی قیادت میں چڑیا گھر کو توڑ کر باہر نکل آئے۔ انہوں نے باہر آکر مخصوص آوازیں نکالیں۔ جنہیں سن کر انسانوں کے پالتو جانور رسے تڑوا کر اور پنجروں سمیت اڑ کر وہاں پہنچنے لگے۔ ایک گھنٹے میں سڑکوں پر خونخوار، چرند اور پرندوں کا سیلاب امڈ آیا۔

چڑیا گھر کے باہر ہر سڑک اور ہر گلی میں جانور ہی جانور تھے۔ قریبی عمارتوں کے مکینوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ پنجرے کے جانوروں کو یوں کھلا دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے۔

چڑیا گھر توڑنے کی خبر پورے شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی اور کوئی بھی انسان باہر نہیں تھا سب کے سب گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔

جانوروں ں ے ٹی وی اسٹیشن، ریڈیو اسٹیشن، ریلوے اسٹیشن، ائرپورٹ، سی پورٹ سمیت ہر اہم سرکاری عمارت پر قبضہ کر لیا۔ جانوروں نے اپنی پولیس اور دیگر فورسز بنانے کے ساتھ عدالت بھی قائم کردی۔

اگلے دن سے عدالت نے اپنی کارروائی شروع کردی۔ عدالت کا جج الو کو مقرر کیا گیا اور جانوروں نے انسانوں کے خلاف مقدمات کی بھر مار کردی۔

جج الو کی عدالت میں پہلا مقدمہ مرغیوں، بکریوں، بھیڑوں اور گایوں کا لگا۔ ان جانوروں کا موقف تھا کہ ”انسانوں نے ان کا بے دریغ قتل کیا ہے۔ نہ صرف ان کی جانیں لیں ہیں بلکہ ان کی تکہ بوٹی بنا کر کھائی ہے۔ “ انہوں نے مزید کہا کہ ”انسانوں نے ان کو جان سے مارنے کے بعد اپنی دکانوں کے آگے لٹکائے بھی رکھا۔ “

بندروں نے کہاکہ ”پنجرے میں انہیں انسانوں نے ہمیشہ خراب چیزیں کھانے کو دیں اور ساتھ میں بہت تنگ کیا۔ انہوں نے کہا کہ“ انسان نے مداری کے روپ میں ان سے کرتب کروائے اور ساری کمائی ہڑپ کرلی اور انہیں پیٹ بھر کھانا نہیں دیا۔ ”

مکاؤ طوطے اور مور سمیت دیگر پرندوں نے کہا کہ ”انسان نے انہیں پنجروں میں قید کرکے ان کی آزادی چھین لی ہے۔ “

گائے، بھینس اور بکریوں نے ایک اور درخواست بھی دائر کی جس کے مطابق ”انسان ان کے بچوں کا دودھ خود پی جاتے ہیں یا اپنے بچوں کو پلادیتے ہیں۔ یہیں نہیں بلکہ اس دودھ سے کھانے کی اشیا کے ساتھ ساتھ وہ اپنی خوبصورتی کی چیزین بھی بناتے ہیں۔ “

شہد کی مکھی بھی عدالت میں عرضدار ہوئی کہ ”ان کے بچوں کا شہد انسان کھا جاتے ہیں۔ “

اس طرح ہاتھی، ریچھ، گینڈے، نیل گائے، مارخور، بارہ سنگا، زرافہ سمیت ہر جانور نے عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والے مظالم بیان کیے۔

جج الو نے سب کی شکایتیں سن کر جانوروں کی پولیس کو مطلوبہ ملزمان گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت کے سمن کی تعمیل ہوئی اور ملزمان کو گرفتار کرکے پیش کیا گیا۔ جج الو نے ملزمان کو ان کے الزامات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ”انسانوں نے جانوروں پر اتنے مظالم ڈھائے ہیں کہ ان پر جرح کی ضرورت ہی نہیں ہے صرف فیصلہ سنایا جائے گا۔ “

جج الو نے کچھ دیر چپ رہنے کے بعد اپنا مختصر ترین فیصلہ سنا دیا: ”انسانوں نے جس جس پیشے میں جس جس جانور کے ساتھ ظلم کیے ہیں اب سے وہ پیشہ جانور اختیار کریں گے اور جیسا انسانوں نے کیا ویسا ہی ان کے ساتھ کیا جائے گا۔ تب ہی انہیں اس درد کا احساس ہوگا جو جانور صدیوں سے سہتے آئے ہیں۔ “
عدالت برخاست ہوگئی۔ اسی دن سے انسان جانور کی زندگی جینے لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments