کیا آپ خوف زدہ ہیں؟



سال  2019ء کے ماہِ دسمبر میں دنیا ایک وائرس سے پیدا شدہ فلو، سانس کی مہلک وبا کی لپیٹ میں آ گیا۔ طبی ماہرین نے اس عالمی وبا) (Pandemic کا نام : Corona Virus Disease 2019 ) COVID 19 رکھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق یہ وائرس ملکِ چین کے جنوبی شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا۔ اس وبا کے متاثرین کھانسی، زکام، بخار اور سانس لینے میں دشواری میں مبتلا پائے گئے۔ اس کے علاوہ مرض کی علامات میں تھکاوٹ، جوڑوں کادرد، خشک گلا اور سونگھنے میں دشواری بھی شامل ہوتی گئیں۔ یہ بیماری ایک دوسرے کو چھونے سے، متاثرہ شخص کے چھینکنے اور کھانسی سے پیدا شدہ معلق بخارات کے صحت مند افراد کی سانس کی نالی میں جانے سے پھیلتی ہے۔

کرۂ ارض کے 210 ممالک اور دیگر خطوں میں اپریل 2010ء کے وسط تک کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد اکیس لاکھ اور ہلاکتوں کی تعداد تیرہ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں متاثرین کی تعداد سات ہزار اور ہلاکتوں کا شمار ایک سو پینتیس کے قریب رپورٹ ہو چکا ہے۔

اکثر مغربی اور کچھ ایشیائی قوموں نے اس وبا کو نا صرف چین کی مقامی وبا سمجھ کر در خور اعتنا نہ جانا بلکہ نئے سیاسی نظریے، معاشی افوائیں اور سازشی مفروضے پیش کرنے شروع کر دیے، جو سوشل میڈیا پر نمودار ہو کر سنسنی پھیلانے لگے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

(1) یہود و نصاریٰ جن میں امریکا، برطانیہ اور اسرائیل شامل ہیں، نے مل کر چین، ایران اور دیگر ممالک پر مہلک حیاتیاتی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا ہے۔

لیکن جب چین نے اس وبا پر اپنی حکمتِ عملی سے کسی حد تک قابو پا لیا اور امریکا، اٹلی، اسپین، فرانس اور جرمنی میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑ ھنے لگی، تو نظریے بھی بدلنے لگے:

(2) چین نے اعلانِ جنگ کیا اور ایک بھی میزائل داغے بغیر تیسری عالمی جنگ جیت لی۔ اب نیو ورلڈ آرڈر آ رہا ہے، جس میں چین دنیا میں ایک عظیم اقتصادی قوت بن کر ابھرے گا، کیوں کہ امریکا، چین سے مات کھا چکا ہے۔

مذہبی تناظر میں یہ فتوے سامنے آئے اور مختلف شکلوں میں ابھی تک افواہ مارکیٹ میں گردش کر رہی ہیں:
(3) کرونا وائرس کوئی بیماری نہیں بلکہ خدا کا نازل کردہ عذاب ہے۔ یہ طاقتور انسانوں کے غریب و نا چار لوگوں بالخصوص روہنگیان، فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھانے اور عام لوگوں پر گناہ آلود زندگی بسر کرنے کی وجہ سے نازل ہوا ہے۔ بنی نوع ا انسان اب بھی توبہ کر لیں، اس سے قبل کہ توبہ کرنے کی توفیق بھی چھین لی جائے۔

اس کے ساتھ سوشل میڈیا اور سیل فونوں پر توبہ اور استغفار کے ورد کے طریقے، قرآنی آیات اور وظیفے بھی کثیر تعداد میں گردش کرنے لگے۔ جب کہ کرونا وائرس سے خطرے کے پیشِ نظر سعودی عرب کے شہر مکہ میں واقع خانہ خدا کو بھی بند کر دیا گیا۔

اس کے علاوہ کچھ خوف زدہ کرنے والی اور سنسنی خیز تھیوریاں بھی سامنے آئیں:

(4) یہودی ساہوکاروں پر مشتمل ایک نہایت امیر اور سیاسی طور پر مضبوط گروپ موجود ہے جس نے انسانوں کو مارنے کے اپنے مذموم ایجنڈے پر عمل شروع کر دیا ہے۔ یہ لوگ دنیا کی آبادی کو سات ارب سے کم کر کے ایک ارب تک لانا چاہتے ہیں، تا کہ کم آبادی پر مشتمل ایک نئی دنیا آباد کریں۔ نئی دنیا ان کے مکمل کنٹرول میں ہو گی۔ اس پر وہ اپنا اقتصادی نظام، اپنا مذہب اور اور اپنا سیاسی نظام رائج کریں گے۔ کرونا وائرس کا پھیلاؤ اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ اکثر مشروبات یہودیوں کی ملکیت ہیں، ان میں کرونا وائرس پہلے سے ڈال دیا گیا تھا۔ یہ اب صرف ظاہر ہو رہا ہے۔

سیل فون کی کمپنیوں نے انٹرنیٹ کے ڈیٹا کی صلاحیت بڑھانے کے لیے جو فائیو جی مواصلاتی ٹاور لگائے ہیں، وہ کرونا وائرس پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ حکیموں اور نیم حکیموں کے وائرس کش نسخے بھی سیل فونز کی سکرین پر مختلف نداز میں جھلملانے لگے:

(5) کلونجی کے چند دانے چبانے سے کرونا وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
(6) بھاپ لینے سے وائرس اگر پھیپھڑوں میں بھی پہنچ چکا ہو، تو بھی مر جاتا ہے۔
(7) زیتون کے تیل کے چند قطرے ناک میں ٹپکانے سے وائرس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔
(8) چند لیموں پانی میں ابال کر دن میں تین دفعہ پینے سے کرونا وائرس سے بیماری لاحق ہونے کا خطرہ نہیں رہتا۔

حالاں کہ اگر کرونا وائرس پر قابو پانا اتنا آسان ہوتا تو دنیا بھر کے ڈاکٹر اور مائکرو بیالوجسٹ اس وقت سر جوڑ کر کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوا بنانے میں کیوں مصروف ہوتے؟

اوپر بیان کیے گئے جذباتی فتوے، افواہیں اور تھیوریاں عام لوگوں کو بے چین اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کر کے ان کی قوتِ مدافعت کم کر رہی ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کی وجوہ کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں، جن کے جواب سائنسدان ڈھونڈ لیں گے۔ مگر اسِ وقت ہم بطور نسلِ انسانی ایک خطرناک وبا میں مبتلا ہیں اور دنیا بھر کی تمام حکومتیں اپنے لوگوں کی زندگیاں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وبا سے بچاؤ کی تدابیر ہو رہی ہیں۔ کیوں کہ جب آگ لگتی ہے تو لوگ سب سے پہلے قیمتی اشیا کو بچانے کی تدبیر کرتے ہیں اور جب آگ بجھ جاتی ہے تو اس کے بعد وجوہ معلوم کر کے آیندہ آگ لگنے سے روکنے کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ ہر سوال کا جواب ابتلا ختم ہونے پر ملتا ہے۔

احباب سے التماس ہے کہ عقل و شعور اور غیر جذباتی رہ کر وبا سے بچاو کے لیے طبی ماہرین کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور اپنے قرنطینہ اوقات کو گھر کے کاموں، کتب بینی، فلم بینی، نئے نئے کھانے بنانے، جسمانی ورزش اور بھرپور نیند کرنے جیسی مفید سرگرمیوں میں تقسیم کر کے اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ اور جو لوگ افواہ سازی، خوف و ہراس اور تھیوری سازی مصروف ہیں ان سے گزارش ہے، کہ پہلے سے سہمے ہوئے غیر یقینی کیفیت میں مبتلا لوگوں کی زندگی مزید مشکل نہ بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments