تف اور حیف ہے تم پر



دستور زمانہ ہے، اگر کوئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے، تو اسے پہلے فیصلہ کرنا ہوتا ہے، کہ وہ کسی ایسے نقشہ نویس سے مشورہ کرے، جو اس کی ضرورت کے مطابق بہتر نقشہ بنا کر دے۔ کوئی ٹرین اپنے ٹریک پر چل رہی ہو، اور اگر ڈرائیور کے پاس ٹائم ٹیبل نہ ہو، تو کسی بھی ریلوے لائن پہ حادثہ ہو سکتا ہے۔ کوئی نئی سڑک تعمیر کی جا رہی ہو، تو انجینئر کو پتا ہو، اس سڑک کا اختتام کہاں ہونا ہے۔ یعنی کسی بھی کام کے آغاز ہی سے اس کی منزل کا تعین کرنے والے کام یاب و کامران ہوتے ہیں، لیکن جمہوریت شاید ایسی منتخب حکومت ہوتی ہے جو ابھی تک محض ایک حکومت ہی ہے، جس کا کام ماسوائے عامتہ الناس کی نفسیات سے کھیلنے کے کچھ نہیں۔

مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل نے اپنے تجربات و مشاہدات کی بنا پر کہا تھا: ”جمہوریت نے مجھے یہ سبق سکھایا ہے کہ ایک ذہین و فطین آدمی کی نسبت، بے وقوف شخص زیادہ ایمان دار ہوتا ہے“۔

حالیہ مشکل معاملات میں حکومت وقت نے غربا کا احساس کرتے ہوئے، ”احساس“ پروگرام کے تحت جو بارہ ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا، اگر چہ میرا بھی خیال یہی ہے کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے۔ شب تاریک میں روشنی کی ہلکی سے کرن بھی مشعل راہ بن جاتی ہے۔ گھنے جنگل میں راستا بھولے شخص کو بہت دور کسی کٹیا میں جلتا دیا، زندگی کی امید بن جاتا ہے، لہذا اس تھوڑے کو بھی بہت سمجھتے ہوئے ہمیں حکومت کے اس اقدام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔

اس پہ بھی حزب مخالف سیاست چمکانے کے بیانات داغ رہے ہیں، کہ اس بے نظیر انکم اسپورٹ کا نام تبدیل کر کے احساس رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی بات نہیں، ایسا ہی ہوا ہو گا۔ اس وقت سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا غربا اور ضرورت مندوں کا احساس کیا گیا ہے یا نہیں؟ جواب ہاں میں ہے، تو پھر مطمئن ہو جائیں۔ کیوں کہ جو بھی پیسا تقسیم کیا جا رہا ہے، پاکستانی عوام ہی میں کیا جا رہا ہے۔ کسی اور سیارے پر نہیں۔ تف اور حیف ایسے بے ضمیر تقسیم کار اور ملازمین پہ جو صدقہ و خیرات بھی اپنا حق سمجھ کر کھا رہے ہیں۔ میں سنی سنائی باتوں یا سوشل میڈیا پر یقین نہ کرتا، لیکن کل جب میں قطر سے پاکستان میں ایک  عزیز سے بات کر رہا تھا، تو اس نے بتایا، میرے گھر میں کام کرنے والی ماسی آج بہت خوش تھی، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا، جو آپ نے میرا فارم بھیجا تھا، اس کے مجھے نو ہزار روپے ملے ہیں۔۔ اس پر میں نے کہا کہ ماسی وہ تو بارہ ہزار تھے۔ باقی کہاں ہیں؟ تو ماسی نے کہا، کوئی بات نہیں بیٹا، چلو نو ہزار میں ہی میرا چند دن کا خرچ نکل آئے گا۔

میں نے ماسی کے صبر، توکل اور شکر گزاری کی داد دی اور اس ملازم کو کتنی دیر کوستا رہا جو مصیبت کی اس مشکل گھڑی میں بھی اپنے لئے آخرت میں مصیبتیں جمع کیے جا رہا ہے۔ وہ شاید یہ خیال کیے بیٹھا ہے کہ اس نے کبھی مرنا ہی نہیں، یاد رکھیں دن سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ ڈریں اس دن سے جب پہاڑ بھی ایسے ہوا میں اڑ رہے ہوں گے، جیسے روئی کے گالے۔ ڈرو اس چیخ سے، جو سماعتوں سے ٹکرائے گی تو اجسام پاش پاش ہو جائیں گے۔ ڈرو اس انصاف سے جس میں اپنے ہی اعضا ہمارے ہی خلاف گواہی دیں گے۔
ملازمین اور تقسیم کنندہ کے قبیح فعل سے مجھے برسوں قبل لکھی گئی کتاب ”ارتھ شاستر” سے ایک اقتباس یاد آگیا:
”جس طرح زبان کی نوک پر رکھے شہد کو بغیر چکھے چھوڑنا ناممکن ہے، اسی طرح سرکاری ملازمین کے لئے نا ممکن ہے کہ سرکاری مال کو تھوڑا سا نہ چکھے۔ جس طرح مچھلی پانی میں ہو تو اس کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پانی پی رہی ہے کہ نہیں، اس طرح سرکاری ملازمین کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا، مال کھا رہا ہے کہ نہیں۔ آسمان پر محو پرواز پرندے کی حرکت دیکھی جا سکتی ہے مگر ملازم کی نیت نہیں“۔

ایسے حضرات ایک دو دن میں مجبور و بے کس افراد کے حق پہ ڈاکا ڈال کر کتنے پیسے جمع کر لیں گے! چند لاکھ سے زائد تو نہیں جو کہ کسی ایک مجبوری، بیماری، مصیبت یا مشکل پہ خرچ ہو سکتے ہیں۔ تو پھر کیوں قدرت کی بے آواز لاٹھی کو آواز دے رہے ہو، کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے؟ ابھی وقت ہے، اے بنی نوع، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم وقت اور مہلت کے لئے التجائیں کرو اور قدرت کی لاٹھی سر پر آن پڑے، اور پھر تمہاری داستان تک بھی نہ ہو داستانوں میں۔

بہتری اسی میں ہے کہ اس ذاتِ توّاب کے سامنے سر بسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہوئے، حق داروں کا حق ان کو لوٹا دو، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، کیوں کہ توبہ کا دروازہ تو ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ حقوق العباد تو بندوں کے معاف کرنے ہی سے معاف کیے جائیں گے۔ یہ صریح فیصلہ ہے قدرت کی طرف سے، اس لئے اے بنی نوع چند سکوں کے عوض اپنے ایمان کا سودا نہ کرو، بلکہ اس ذات کے یہاں سے بہتر اجر کی تمنا و طلب رکھتے ہوئے نا چاروں کے دکھ کا مداوا کرو۔ وگرنہ تم پہ تف اور حیف کے لئے تو پوری قوم تیار ہے۔

اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے با ضمیر ہو کر سوچیں، تو یہ ایک ایسی سنت مطہرہ ہے، کہ جس نے پیارے آقاﷺ کو قبل از اعلان نبوت ہی اہل مکہ کی نظروں میں اتنا معتبر کر دیا، کہ دشمن آپ ﷺ کو صادق و امین کا لقب دینے پر مجبور ہو گئے۔ پھر امانت داروں کو ان کی امانتیں دیانت داری کے ساتھ لوٹانا سنت علی پر عمل پیرا ہونا ہے کہ جب حضرت محمد التحیۃ و السلام مکہ سے مدینے کی طرف عازم سفر ہوئے تو جو مکہ والوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں وہ سب کی سب واپس لوٹانے کے لئے آپ ﷺ نے حضرت علی ؑ کو مخصوص کیا کہ کل تم سب امانتیں لوٹا کر پیچھے آ جانا۔

اب لمحہ بھر کو سوچیں کہ جو رقم آپ کے ہاتھ میں ہے، وہ کسی کی امانت ہے اور حق دار تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری اور فرض ہے اور حق دار کو پورے کا پورا حق لوٹانے ہی میں فلاح اور کامرانی ہے۔ دار بے ثباتی میں بھی اور مقام مستقرا و مقاما میں بھی۔ ایک لحاظ سے اللہ تعالی ٰ نے ملازمین کے ہاتھ میں اپنا مستقبل عطا کر دیا ہے، کہ تم اس معمولی سے فعل سے کامیابی اور اجر کمانا چاہتے ہو کہ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہونا چاہتے ہو۔ لہذا ہمیں غربا اور مستحق کے بارہ ہزار میں سے چند سو یا ایک دو ہزار کٹوتی کر کے اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی بلکہ حق دار کو ان کے حق سے بھی زیادہ عطا کرنے کی سعی پیہم کرنا ہے۔ تا کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ اپنے آپ کو تنِ تنہا نہ خیال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments