آزاد کشمیر میں نئے ڈاکٹروں کے مسائل



ریاست کو ’گھر‘ کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور ادارے اس گھر کے فرد کہلاتے ہیں۔ اپنے مکینوں کو بیرونی یلغاروں سے بچانے کے لیے ’گھر‘ سے بڑی ڈھال اور مثال اور کوئی ہو نہیں سکتی۔ لاکھ طوفان آئیں اور در و دیوار کے پاوں کھسکائیں، تاہم مکینوں کا شکست و ریخت بال بیکا تک نہیں کر سکتی۔

ریاست اور اس کے اداروں کے درمیان کبھی کبھی اونچ نیچ بھی ہو سکتی ہے ان حالات میں ریاست کو دو قدم آگے بڑھ کر اپنے باسیوں کو گلے لگانا چاہیے۔ ان کی اصلاح کرنی چاہیے۔ یلغار برپا کرنا تو فساد کو جنم دے ڈالتا ہے۔ بے مثال شاعر عرفان صدیقی نے کہا ہے:
بہت خراب تھی، شعلہ گروں کی قسمت بھی
مکان اور بھی جلتے، ہوا چلی ہی نہیں

جلہم اور اس سے ملحق پنجابی علاقوں سے آزاد کشمیر میں داخل ہونے والوں کو انٹری پوائنٹ ’منگلا‘ سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس علاقے سے ملحق منگلا ڈیم ہے۔ اس آبی ذخیرے کے ارد گرد ہواؤں کے جو قافلے گشت کرتے ہیں دلوں کے تار چھیڑ ڈالتے ہیں اور پانی پہ چاندنی کا جمنے والا عکس ”شب بر رہا چرچا تیرا“ کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ یہ ڈیم مسافر کو سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ انٹری سے چار چھے میل فاصلے پر سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے نام پر ایک میڈیکل کالج قائم ہے۔

ایک طالب علم سمیر احمد ہے، جو اس ادارے میں آخری سال میں زیر تعلیم ہے۔ ”گردش دوراں“ نے اسے سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس سال یک سوئی کے ساتھ وہ امتحان اس لیے نہ دے سکا کہ حکومت نے پانچ سالہ ڈگری مکمل ہونے کے بعد ہاؤس جاب کو ایک نئے امتحان ’این۔ ایل۔ ای‘ سے مشروط کر دیا تھا۔ پہلے اس طرز کا امتحان طرف بیرون ملک سے میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے یہاں آنے والے ڈاکٹر دیتے تھے، جن کا مقصد پاکستان میں کام کرنا ہوتا تھا۔ پاکستانی ڈاکٹروں کے لیے یہ امتحان شرط نہیں تھا۔ یہ تبدیلی پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے کے بعد نئے میڈیکل کمیشن نے لائی تھی۔

پی۔ ایم۔ ڈی۔ سی شعبہ طب کی ایک ریگولیٹری باڈی ہے۔ اس کے فرائض منصبی میں نئے و پرانے ڈاکٹروں کو پریکٹس کے لیے لائسنس جاری کرنے سے لے کر میڈیکل کالجوں میں تعلیم کے معیار کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ یہ ادارہ جو کہ بہتر انداز میں چل رہا تھا، اس کو حکومت وقت نے تاریکی شب میں ایک ”آپریشن“ کے ذریعے تالا لگا دیا۔ بیک جنبش قلم اس کے دو سو سے زائد ملازمین کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ یہ سب ہو جانے کے بعد اس کا نیا نام ”پی۔ ایم۔ سی“ رکھا گیا اور مرکزی باڈی میں شوکت خانم اسپتال سمیت بڑے نجی اداروں سے ممبر چنے گئے۔ اس ”چناؤ“ کا کیا معیار رکھا گیا، کسی کو کچھ پتا نہ چل سکا۔ در ایں حالیکہ کس بھی سرکاری ادارے کا سینئر ڈاکٹر اس نئے کمیشن کا ممبر نہ بن سکا۔

یہ سب آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا۔ سینٹ میں عددی برتری نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب نا منظور ہو گیا۔ حکومت نے اس نا منظوری کی کوئی پروا نہ کی۔ بارہا عدالت کی طرف سے حکومت کے اس اقدام کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اور چار لفظوں والے پرانے ادارے پی ایم ڈی سی کو ملازمین سمیت بحال کیا جاتا ہے، مگر حکومت تین لفظوں والے نئے نام ”پی ایم سی“ اور ”نئے“ لوگوں کی تعیناتی کے لیے بضد ہے۔ اگر وہاں کچھ چیزیں قابل اصلاح تھیں تو حکومت کو چاہیے تھا پہلے اس میں بہتری کے لیے توجہ دیتی۔ ذمہ دار ٹھہرائے گے لوگوں کو صفائی کا موقع دیا جاتا اور جو باعث خرابی ہوتا اس سے قانون کے مطابق نمٹا جاتا۔ کسی ایک شخص کی غلطی کا ازالہ ادارے کو بند کرنا نہیں ہو سکتا۔

یورپ میں میڈیکل کے پانچویں سال والے طلبا کو اس آخری سال کا امتحان لیے بغیر پریکٹس کے لیے لائسنس جاری کردیے گئے ہیں۔ عالمی وبا کی تباہی کی وجہ وہ لوگ یہ اقدام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ کیوں کہ نئے ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے۔ جب کہ ہمارا لائسنس جاری کر نے والا ادارہ عدالت کے حکم سے آج کھولا جاتا ہے، تو حکومت نے اس کل بند کر دیتی ہے۔ اس رویے پر ہزاروں نئے ڈاکٹر سراسیمگی کا شکار ہیں کہ یہ اونٹ کسی ایک کروٹ تو بیٹھے۔

شعبہ طب کو کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت حاصل ہوتی ہے۔ آسان اور فوری علاج ریاست کے ہر باشندے کا حق ہے۔ ہمارا شعبہ طب کوئی بہت زیادہ مثالی شعبہ نہیں۔ گونا گوں مسائل کا شکار ہے۔ بادی النظر میں اس کی شکستگی کی ایک وجہ یہ سامنے رکھی جاتی ہے کہ بجٹ میں جو وسائل اس کو چلانے کے لیے مہیا کیے جاتے ہیں، ان کو کافی نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان کی آبادی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے، شعبہ طب کا انتظام و انصرام بڑھتی ہوئی آبادی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چھوٹی چھوٹی ڈسپنسریاں جو دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں موجود ہیں ان کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ حکومت چاہے تو ان ڈسپنسریوں میں یا ان علاقوں میں نئے سینٹر قائم کرے، جہاں زچہ بچہ اور امراض نسواں کے ماہرین کو تعینات کر کے دیہاتیوں کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کیا جا سکے۔

اس شعبے کی خستہ خالی کی ایک وجہ اس کو چلانے والے اور اس سے متعلق پالیساں بنانے والے وہ لوگ ہیں جو سیاست سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ سرکاری بابو ہیں۔ ماہرین طب کو پالیساں بنانے سے دور رکھا جاتا ہے۔ عالمی وبا کے دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھ لیجیے جن کے ہم راہ ہر پریس کانفرنس میں ماہرین صحت کی ٹیم ہوا کرتی ہے۔ جس میں وبائی امراض اور پبلک ہیلتھ کے ماہرین سے لے کر دوا بنانے والے ماہرین موجود ہوتے ہیں۔

یہ بھی ہماری بد قسمتی کہ اس شعبے سے وابستہ اکابرین اس میں بہتری کے لیے وہ حصہ نہیں ڈالتے جو ان کے فرائض میں شامل ہے۔ وہ چاہیں تو حکومت کے ساتھ مل کر کچھ بہتری لا سکتے ہیں۔ جس معاشرے میں رائج روایات کے ”نقش قدم“ بول رہے ہوں تو پھر ”روایت“ ہی قائم رہتی ہے بہتری نہیں آ سکتی۔

چند روز سے پرانے ادارے کو بحال کر دیا گیا ہے اور اس کے صدر دروازے کے سامنے لائسنس لینے والوں کی قطاریں موجود ہیں۔ وبا کی وجہ سے ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ کئی ماہ یہاں معمول کا کام نہیں ہو سکا۔ اس آنکھ مچولی سے صرف نئے ڈاکٹر ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ میڈکل کالجوں میں تعلیم کا معیار بھی پرکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے فارغ التحصیل ہونے والوں کا معمول کا امتحان بھی لٹکا ہوا ہے۔

حکومت اور ادارے کے درمیان لڑائی سے ادارہ بھی کم زور ہوتا ہے اور اسی شدت و حدت سے حکومت بھی۔ مسئلہ تو جناب شیخ کے نقش قدم ہیں، جو یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی۔ متعدد بار کے عدالتی حکم کے بعد پی ایم ڈی سی بحال ہوئی تو نیا امتحان بھی ختم ہو گیا/ مگر اس نقار خانہء تبدیلی میں کسی طالب علم اور اس کے والدین کی نفسیاتی رگیں دکھی ہوں، تو اس کا ازالہ اس ہیجان کے ذمہ دار تو کرنے سے رہے۔ غور طلب یہ بھی کہ کب کم زور معاشرے ان اہم مسائل کو خاطر میں لاتے ہیں۔

ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور
Latest posts by ڈاکٹر عثمان غنی، میرپور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments