مذہب، انسان اور مسلمان



دنیا کی نئی صورت حال نے ہم میں سے ہر ایک کو احساس ذمہ داری کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ غیر مستعد، حیران و سرگرداں، دنیا ایک روحانی صحرا بن چکی ہے۔ ساری دنیا کے انسان اس کرب سے باہر نکلنے کے کسی راستے کے اور انسان ہونے کی کسی نئی معنویت کے متلاشی ہیں۔ کیا ایسے وقت میں انبیاء کے پیغام کو زندہ رکھنے کے دعویداروں سے کسی مدد کی توقع کی جا سکتی ہے؟ خدا کے نام کی لاج رکھنے کے پابند لوگوں کے لیے بے شک یہ بہت بھاری وقت ہے۔

کیا مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے مسلکوں کی قید سے انسانوں کے خدا کو آزاد کروا کے انسان کو انسانوں کے خدا سے متعارف کروانے کا ظرف دکھا پائیں گے؟ مذہبی ٹھیکیدار خدا اور ا س کے بندے کے درمیان حائل ہو گئے ہیں۔ مسلکوں کی منڈی میں دین اور دین کی تعلیمات گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ کئی مسلکی اور مذہبی رسوم نے خدا پرستی کے تصور کو دھندلا دیاہے ان کے مذہبی کاروباری مفادات نے مذہب کو دین سے صنعت بنا کر رکھ دیا۔ پالنے اور دینے والے رب کو انسانوں کے چڑھاووں اور نذرانوں میں لپیٹ کر اپنے آستانے بنا لیے ہیں۔

اب تاریخ نے ایک پل سستا کر پھر سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ اب بھی وقت ہے توبہ کر لو اور خدا اور اس کے بندوں کے درمیان آڑھتی مت بنو۔ اگر عبد اور معبود کے درمیان حائل رہے تو یاد رکھو، وہ سب کچھ معاف کر دیتا ہے لیکن شرک معاف نہیں کرتا۔ اس وقت کڑوا سوال مذہب کی بقاء کا نہیں ہے بلکہ انسان کی بقاء کا ہے؟ ۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ دلوں کو سنگ بننے سے بچانے کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی جائے اور دنیا کے سامنے قرآن حکیم کے مطلق تصورات حیات و افکار کو سامنے لایا جائے۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ خدا کے بغیر انسان فقط ایک دھڑ رہ جاتا ہے۔ اگر انسان کو اس کی انسانیت سے محروم کر دیا جائے گا تو انسان کا متضاد جانور نہیں ”شیطان“ ہے۔ مذہب کے حقیقی کردار کے فقدان کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان الجھنوں میں الجھا تضادات کا مجموعہ بن کر رہ گیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے امیر ترین معاشروں میں بھی انسان انجانے کرب اور لادوا درد کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس خارجی ہنگامہ بھی اس کے داخلی ہیجان کا منہ چڑھا رہا ہے تاریخ کے کئی نشیب و فراز سے گزر کر بھی اسے زمین پر چلنا نہیں آیا، اس کی کنفیوژن کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔

آج انسانوں کا معیار زندگی بلند اور سوچ کا انداز عامیانہ ہے۔ اس دنیا کا عصری مسئلہ سیکولرآیزیشن عمومی معنوں میں لادینیت نہیں، میکانکیت اور عسکریت ہے۔ اس وقت کرة ارض پر بسنے والے تیزرفتار انسانوں کو درپیش چیلنج یہ نہیں کہ عبادت گاہیں اور ان کی صفیں خالی ہو گئی ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہمارے دل خالی ہو گئے ہیں۔ جیسے جیسے ہم انسان کی ذات کی بلندیوں کی طرف بڑھتے ہیں ہر فرد کی انفرادیت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے زیر اثر مذہب کا پچیدہ شعبہ بھی تضادات و تنوعات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔

لمحہء موجود میں فہم عامہ بھی کاروباری ذہنیت اور مصلحت کوشی کا شکار ہو چکی ہے۔ مذہب یا حقیقت خدا کی بازیافت کے لیے ہمیں غیر معمولی حسوں کو اجاگر کرنا ہو گا۔ اگر ہم سچائی کی تلاش میں نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اذہان و قلوب پر پڑے وہ پردے ہٹانے ہوں گے جنہوں نے الوہی حقیقت کی روشنی سے ہمیں محروم کر رکھا ہے۔ ہمیں سرمایہ دارانہ مذہبی فکر کو ترک کرنا ہوگا جس میں چڑھاووں کے واجبات ادا کیے بغیر ہمارا رب بھی ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا۔

فکری فرسودگیوں سے نجات تکلیف دہ کام ہے اور ہر کسی کے بس کی بات نہیں، فکری سچائی کے رائج بتوں کو توڑنا عامتہ الناس کی ہمت سے بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن یہ بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی آدمی تو باکردار اور صاحب تدبر وتفکر ہوتا ہے۔ پروفیسر وہائیٹ ہیڈ نے لکھا ہے کہ مذہب اعتقاد کی اس قوت کا نام ہے جس سے انسان کی اندرونی پاکیزگی ہو جاتی ہے۔ یعنی مذہب ان صداقتوں کے مجموعے کا نام ہے جن میں یہ قوت ہوتی ہے کہ وہ انسانی کردار میں انقلاب پیدا کرے۔

لہذا سچے مذہبی انسانوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ تاریخ کے اس اہم سنگ میل اپنے اندر جھانک کر اپنے عقیدے کی تجدید کی سعی کریں گے کیونکہ خدا پرستوں کی راست فکری کے بغیر انسان صراط مستقیم کی دریافت نو میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آئیے فردوس گم گشتہ کی دریافت میں انسانیت کی راہبری کا فریضہ انجام دینے کے ذمہ داری نبھانے کے لیے خود کو تیار کریں۔ مذہبی افکار کی تفہیم نو کے ذریعے تشکیل نو کا فرض نبھا کر دین کی آفاقیت کو مسلمہ بنائیں۔

دنیا میں سب سے زیادہ گفتگو مذہب کے بارے میں ہوتی ہے اور سب سے زیادہ مبہم اور غیر متعین تصور بھی مذہب کا ہے۔ انسان جب جب مادیت کے لیے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوا، اس نے بیٹھ کر سوچنا شروع کر دیا کہ اس کا حریف تازہ کون ہے۔ جو سامنے بھی نہیں آتا اور اس کا پیچھا بھی نہیں چھوڑتا؟ یہیں انسانی فکر اور اس کے اندرونی ہیجانات کی کشمکش کا میدان سجتا ہے تو مادی مسافت کی تھکاوٹ“کشمکش کی شدت اور جدید آیزش کی مشقت سے گھبرا کر وہ اپنا سفر چھوڑ کر باطنیت و رہبانیت سراب کی طرف چل نکلتا ہے۔

پروفیسر سی ایم جوڈ جیسا فلاسفر بھی اپنی آخری عمر میں مراقبہ میں بیٹھا نظر آتا ہے۔ لیکن یہاں بھی اطمینان پا کر انسان نے ایک اور راہ اختیار کی کہ خدا نے کائنات بنا دی اب وہ اسے چلانے میں دخل نہیں دیتا، اس نے یہ مشین انسان کے سپرد کر دی ہے لہذا کائنات میں اب الوہیاتی منصب خود انسان کو مل چکا ہے۔ August Comte جو اس نظریہ کا موجد تھا نے کہہ دیا کہ ”انسانیت ہی خدا ہے“ یہ تصور ہیومنزم کہلاتا ہے۔ ممتاز دانشور Sheen، Brightman، اور H۔

R۔ Rafton وغیرہ انہی خیالات کے حامی رہے۔ انسانی ذات کے اثبات کی فکر نے ذات خداوندی کا ہی انکار کر دیا۔ اسی طرح ردعمل میں Feuerbach نے کہہ دیا کہ خدا صرف انسان کے دل میں ہوتا ہے اس کے باہر اس کا کہیں وجود نہیں یعنی وحدت الوجود pantheism نے وجود خداوندی کے اثبات کے لیے انسانی ذات سے ہی انکار کر دیا۔ ان متحارب تصورات کی جنگ میں پرنسپل کیرڈان نے یہ تصور دیا کہ حقیقت یہ ہے کہ خدا اور انسان۔ محدود اور لامحدود۔

ایک ہی کل کے جزو ہیں جس کل میں بیک وقت سب موجود ہوتے ہیں، الگ الگ بھی اور اکٹھے بھی۔ اس کو Theism کہتے ہیں دوسری طرف وہ یہ کہہ کر کہ خدا کائنات سے بے تعلق ہو کر کہیں الگ نہیں بیٹھا کائنات اسی کی توانائی سے چل رہی ہے۔ برگساں، ایڈنگٹن، ہاکنگ اور وہائیٹ ہیڈ جزوی اختلافات کے باوجود کم و بیش اسی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ ان ذرا مشکل اور خشک حوالوں کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ یہ سمجھنے میں آسانی رہے کہ فکر جدید بھانت بھانت کی بولیاں بول کر، طرح طرح کے پاپڑ بیلنے کے بعد تھک ہار کر آخرکار پہنچی اسی نتیجے پر کہ کائنات اور انسانی زندگی کے تضادات کا حل صرف مذہب کی رو سے مل سکتا ہے۔

جب یہ فکر تضادات و مشکلات کے حل کی دریافت کے لیے مذہب کی جانب آئی تو مذہب ہے کیا؟ ان کے نزدیک یہ سوال چیلنج بن کھڑا ہو گیا۔ در اصل وہ مذہب کی طرف آنا نہیں چاہتے تھے وہ چونکہ مادی و میکانکی زندگی کی دلدل میں دھنس کر ہلکان ہو رہے تھے اس کے لیے راہ گریز و فرار کے متلاشی تھے عیسائیت نام بھی مادیت سے فرار کا ہی ہے اس لیے اس تناظر میں و باطنیت و رہبانیت کو مذہب سمجھ بیٹھے۔ باطنیت یا Mysticism میں خدا خود نفس انسانی کے اندر موجود ہے۔

جو یہ محسوس کرے وہی خدا ہے اس کے علاوہ خدا کے متعلق اور کوئی ذریعہء علم نہیں۔ ظاہر ہے یہ رہبانیت مغرب کے جدید سائنسی سماج کا ساتھ دینے کا اہل ہی نہیں تھی۔ Keyserling کے خیال میں جس چیز کو باطنیت بقا سمجھتی ہے یہ بقا انسانیت کی اپنی ذات کی فنا ہوتی ہے۔ چنانچہ مغرب نے اس سے دوری کی راہ لی اور سمجھا کہ دنیا میں جہاں جہاں مذہب کا نام لیا جاتا ہے وہاں اسی قسم کا مذہب ہوگا وہ ایسا سمجھنے میں حق بجانب تھے اس نئے سفر میں ایک طبقے نے یہ خیال زندہ رکھا کہ ہمارے تضادات کا حل مذہب سے ہی مل سکتا ہے لیکن وہ کون سا مذہب ہو گا جس میں آفاقی مسائل کے جواب کی سکت ہو گی۔

اس صورتحال میں اوسپنسکی نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ جو مذہب سائنس کی تکذیب کرے اور جو سائنس مذہب کی تکذیب کرے، وہ دونوں باطل ہیں۔ ایسی بلند ترین سطع کا مذہب وہی ہو سکتا ہے جو انسانی علم وبصیرت کی راہ نمائی کرے۔ ایسا مذہب جو علم و بصیرت کے سامنے آنے سے ہچکچائے یا شرمائے وہ انسانیت کا مذہب ہو نہیں سکتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسان دوام اور تبدل کا مجموعہ ہے۔ اس کے مذہب کو بھی سائنس کی طرح بدلتے ہوئے تقاضوں کا لحاظ رکھنا پڑے گا۔

اس کے اصول ابدی ہو سکتے ہیں لیکن ان کی تعبیر روح عصر کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس پس منظر میں جاننے کی کوشش کریں تو روح اجتہاد کے ساتھ دین اسلام ہی انسانیت کا مذہب ہو سکتا ہے۔ انسانی فکر اپنے لیے جس مذہب کے مطالبے پر پہنچی تھی وہ یہی تھا کہ صحیح مذہب انسانی ترقی کے لیے صحیح سمت بھی متعین کرے اور انسان کے مستقبل کی امیدوں کی نشاندہی کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مذہب وہ ہوگا جو پختگئی عقاید اور عمل پیہم دونوں کا امتزاج اور اپنے اندر عالمگیریت بھی رکھتا ہے۔

فکری تاریخ کے طویل سفر میں جدید انسان جس قسم کے مذہب کی تلاش میں تھا وہ دین اسلام کی صورت میں موجود تھا لیکن حیرت ہے کہ مسلمانوں کی حالت و فکر دیکھ کر جدید انسان کی نظر اسلام کی طرف نہیں گئی۔ کیونکہ مسلمانوں کی اپنی مذہبی صورتحال ایسی ہے کہ ہماری الہیات سیاق سے خارج، درپیش عصری و ناگہانی حالات سے بالکل غیر متعلق، ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ توانائیوں سے ناموافق اور ہمارے ہیجان سے لاتعلق ہو چکی ہے۔ ہم جو اپنی کوتاہیوں کو مذہبی جواز فراہم کرنے کے عادی ہیں، اسلام کو انسانیت کا دین بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔

ہماری دینی وابستگی ہماری فکر کا لازمہ ہونے کی بجائے محض وجود کا ضمیمہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم غیر متعلق اور دقیانوسی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور عالمی نوعیت کے مسائل سے کتراتے ہیں۔ ہمارا دینی شعور فقط ظاہری مذہبی رسوم، عقاید، اداروں، علامات اور الہیات تک محدود ہے۔ ہم تعصبات کو معیار بناتے ہیں اور کیفیت کو کمیت کے پیمانوں سے ماپتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کی مسلکیت و فرقہ واریت نے بڑے بحران سے دوچار کر رکھا ہے جس کا کرب بہت گہرا ہے۔

اس سارے منظر نامے میں صرف عقیدے کی شقیں یا شریعت کے احکام، طریقت کی کرامتیں اور علم الکلام کی بحثیں ہی نہیں بلکہ انسانیت اور مالک کائنات کا قرب بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔ اس وقت اہم سوال مذہب کی صداقت سے آگے کا ہے آج مذہب کی صداقت محسوس کرنے کی انسانی صلاحیت کا امتحان ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ آج انسان اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے کہ نہیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمان دین فطرت کی آفاقی تعلیمات سمجھ کر دنیا کے سامنے پیش کریں۔

مذہب انسان کی دانشورانہ صحت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ ماننے والے کے اندر درست سوچنے کی حس بیدار کرتا ہے۔ مذہب چند مخصوص رسومات کے مجموعے کا نام نہیں بلکہ ارد گرد غور و فکر سے تسخیر کائنات کے ادراک کا پیامبر ہوتا ہے۔ یہ انسانیت نہیں بلکہ انسانیت کی معراج کا نام ہے۔ یہ مخلوق خدا سے حسن معاملات کے تقاضے پورے کرنے کے بعد سچے عبد کی طرح معبود کے حضور حاضر ہونے کا نام ہے۔ ہر عہد کا انسان اپنی فطرت اور ضرورت کے تحت خدا کا طالب ہوتا ہے۔

آج انسان ایک بارپھر شعوری و غیر شعوری، ارادی و غیر ارادی طور پر ایک بار پھر گھروں میں مقید ہوکر اپنی اپنی تنہائی میں اپنے اپنے باطن سے ہمکلام ہے اور آنکھیں بند کر کے صمیم قلب سے آسمانی طاقت یا کائنات کے حقیقی مالک کو کہیں دل میں اور کہیں باآواز بلند پکار رہا ہے۔ آئیے انسان کی اور خدا کی قربت میں اپنا حصہ ڈالیں اور مذہب کی تفہیم نو کے لیے عالمی مکالمے کا آغاز کریں اور بطور مسلمان قرآن فہمی سے رسوم و رواج کے خداوں سے نجات حاصل کر کے علیم وبصیر رب کو پکاریں اور خالص خدائی فکر سے کائنات کی ترقی و خوشحالی میں حصہ ڈال کر اپنے رب کی زمین امن و اشی، علم و دانش، اعتدال اور احترام کی جنت بنا دیں۔

کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد ایک نئی دنیا تشکیل ہونے جارہی ہے۔ دنیا کی سماجی، معاشی، سیاسی، فکری اور مذہبی جہتوں میں بہت تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ خدائی تعلیمات کے حامل ہونے کے دعویدار مسلمانوں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ہمیں پورا انسان بننا ہے کہ اچھا انسان ہی اچھا مسلمان بن سکتا ہے۔ مذہب انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ جو لوگ انسان نہیں بنتے وہ مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے بنیادی اہلیت انسان ہونا ہے۔ آئیے عہد کریں کہ ہم سب محسن انسانیت، رحمت للعالمین ص کی سیرت طیبہ کے مطابق روشن خیال، بصیرت و بصارت کے حامل انسان دوست، انسانیت نواز مسلمان بنیں گے تاکہ خدا کی زمین پر خدا کے آصول حرکت و تغیر کے علمی و حکیمانہ نظام کا راج قائم ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments