میں نے ہندوستان کو بدلتے ہوئے دیکھا



سڑکوں، چوراہوں پر ترشول اٹھائے اب ان خانہ بدوشوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ میں نے ان خانہ بدوشوں کو ہالی وڈ کی فلموں میں دیکھا تھا۔ مارخیز کے ناول میں یہ بھلے خانہ بدوش تھے جو ہر دن نئی دنیا سے ٹکرا رہے تھے۔ ان کا ایک سماج تھا اور اس سماج میں محبت جیسی شے بھی قائم تھی۔ مگر ان خانہ بدوشوں کے چہرے سے زہریلے پوسٹر جھولتے تھے اور ان کے پیچھے وہ لوگ تھے جو تعلیم یافتہ تھے، مہذب معاشرے کے ٹھیکیدار تھے مگر ان کا تعلق اس کیمپ سے تھا، جس کی بنیاد پر نفرت کی فصیلیں قائم کرکے ہی یہ اپنی سلطنت کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔

گلیشیرس پگھل رہے تھے۔ سائبریا میں گھاس اُگ رہی تھی۔ سائنس کی تجربہ گاہ میں انسان بنائے جارہے تھے اور ناسا نئی دنیاؤں کی دریافت کے لیے تجربے کررہا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جنگوں کے دروازے کھلے تھے۔ اب ایٹمی ہتھیاروں کی باتیں پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگی تھیں۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ایٹمی ہتھیار بنانے پر زور دے رہے تھے۔ اور جیسا کہ ہر من ہیسے نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا، ایک نئی دنیا، مرغی کے انڈے سے باہر نکلنے والی ہے۔ اور یہ دنیا ان لوگوں کے لیے خطرناک ہوگی جو پرانی دنیاؤں سے ابھی بھی چپکے ہوئے تھے۔

میری آنکھوں میں ایک ٹائم مشین فٹ ہے، جس سے ہوکرمیں اکثر ماضی کی وادیوں میں نکل جاتا ہوں۔ مجھے شدت سے احساس ہے کہ بچپن سے اب تک کافی حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ مگر اس تبدیلی کو سمجھنے سے میں قاصر تھا۔ جب کوئی سہولت یا آسانیاں نہیں تھیں، جب گرمی کے موسم میں پنکھے بھی نہیں ہوتے تھے اور جسم پسینے سے تر بتر ہوا کرتا تھا تب ایک آزادی تھی۔ دوڑنے کی آزادی۔ خوش رہنے کی آزادی۔ اپنی بات کہنے کی آزادی۔ وقت کے چھلانگ لگاتے ہی آزادی کا تصور بہت حد تک ختم ہوگیا تھا۔

اندھیری راتوں میں جب آسمان زمین پر جھکا نظر آتا تو تاحد نظر مجھے کیکٹس کے درخت نظر آتے۔ یہ میرا وہم تھا لیکن کیکٹس کے درختوں کو مسلسل دیکھنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ کیکٹس سے نکلے ہوئے کانٹے سیدھے میری روح کو زخمی کرتے تھے اور ان کی چبھن کا احساس پرانے گڑے مردوں کی یاد دلاتا تھا۔ دلی والے ویسے بھی اب دیر تک جاگنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ مگرمجھے یقین ہے، وہ ان شعلوں کو ضرور دیکھتے ہوں گے، جو کبھی کبھی آسمان سے اٹھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

خانہ بدوش مطمئن تھے کہ بغاوت اب زیادہ دور نہیں۔ اور اسی طرح پارٹی مطمئن تھی کہ انیس سو پچیس سے اب تک یہ سرد الاؤ تو جلاتے رہے مگرحاصل کچھ نہیں ہوا اور اس لیے بابری مسجد کا غم یا حادثہ دلوں سے جلد نکل جائے گا۔ اڈوانی کو وہ شخص عزیز تھا جو اکثر ان کا خیال رکھتا تھا اور انہیں چائے پلایا کرتا تھا۔ جبکہ باجپائی نے کئی بار انہیں ہدایت دی تھی کہ لوگوں کے چہرے کو پڑھنا سیکھیں ورنہ آیندہ مشکل ہو سکتی ہے۔ اور اڈوانی اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے مطمئن تھے کہ فضا اب ان کے حق میں ہے۔ اور بدلتے ماحول میں نئی پارٹی کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سن دو ہزار آتے آتے یہ پوری دنیابہت حد تک تبدیل ہوچکی تھی۔ سیاست میں اخلاقیات کے معنی بدل چکے تھے۔ زندگی بدل چکی تھی۔ اور بدلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہر دوسرے دن سائنس اور تکنالوجی کے نئے نئے کارنامے اور کرشمے سامنے آجاتے تھے۔ سن دو ہزار تک بچوں کی دنیا بدل چکی تھی۔ پہلے جہاں صرف دور درشن دکھایا جاتا تھا، اب بہت سے ٹی وی چینلز آچکے تھے۔ اب کوئی سرکاری بھونپو کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا تھا۔

آسمان پر عقاب اڑ رہے تھے۔ بی مشن نے حکومت بنالی تھی۔ کانگریس کا غرور خاک میں مل گیا تھا مگرکانگریس کو یہ خوش فہمی تھی کہ ان کی واپسی ضرور ہوگی۔ عوام کے فکر میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلی آئی تھی۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ نئے بچوں کے کھان پان کا تصور بدل گیا تھا۔ اب فاسٹ فوڈ کا زمانہ تھا۔ بچے فاسٹ فوڈ کی دنیا میں، خود کو نئی زندگی میں محسوس کررہے تھے۔ ماں باپ کے ساتھ یا خاندان کے ساتھ رشتوں کی ڈور بہت حد تک کمزور پڑ چکی تھی۔ یہ بدلا ہوا ہندوستان تھا۔ جبکہ صبح کی کرنوں میں ابھی بھی اس پرانے ہندوستان کی جھلک دیکھنے والوں کو نظر آتی تھی۔ گلابی دھوپ کا پیغام پڑھنے والوں کی کمی تھی۔ مگر زندگی تیز رفتار ہوگئی تھی۔ سن دو ہزار کی شروعات نے سب سے بڑا حملہ اقتصادیات پر کیا۔ کئی ملکوں میں چیخ وپکار مچ گئی۔

ہندوستان میں کمرشیل نائٹ سروس کا آغاز ہوا۔ نوجوان بچے غیر ملکی اداروں سے وابستہ ہونے لگے جہاں پیسے بہت زیادہ تھے اور زندگی آپ کو زیادہ غور و فکر کرنے کا موقع نہیں دیتی تھی۔

دو ہزار پانچ تک ہم گودھرا اور فرقہ واریت کے کیی خوفناک تماشے دیکھ چکے تھے۔ اس درمیان کئی ملکوں میں آنے والی سونامی نے بھی معیشت پر حملہ کیا تھا اور اس بات کا احساس دلایا تھا کہ ارنیسٹ ہیمنگ وے کا بوڑھا آدمی ہر مورچے پر کامیاب نہیں رہتا۔ سمندری غصے کے آگے انسان بے بس اور لاچار ہے۔ اور یہ لاچاری اس ملک میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب گجرات میں ہونے والے فسادات نے ہندو اور مسلمانوں کو دو زہریلے حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔

2020 کی صبح نمودار ہوئی۔ اس صبح کے آنے تک منظر صاف ہوچکا تھا۔ خانہ بدوش حکومت میں تھے۔ بگ برادر اور بگ مین کے علاوہ پارٹی میں اور کوئی بھی نہیں تھا، جس کے پاس طاقت ہو یا جس کی آواز میں ارتعاش ہو، کچھ کہنے کی ہمت ہو۔ خانہ بدوش سڑکوں پرآزادانہ گھوم رہے تھے۔ قتل کر رہے تھے اور ایک بڑی آباد ی کو شہریت سے محروم کرنے کے میپ بنائے جا چکے تھے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت کی مہر تھی اور تمام ایجنسیاں حکومت کی نگرانی میں کام کررہی تھیں۔

میڈیا بھونپو بن کر رہ گیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ چوراہے پر نفرت کی قندیلیں روشن تھیں۔ بابری مسجد کا فیصلہ آچکا تھا۔ اور آیندہ کے انتخابات کے لیے اس فیصلے نے تمام راستے صاف کردیے تھے۔ مسلمان حیرانیوں کے درمیان پتھریلے راستوں پر چل رہا تھا اور اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس کا ماسک کس کے چہرے پر ہے۔ مایا وتی سیکولر ہیں تو ان کے چہرے پر مودی کا ماسک کیسے آ جاتا ہے۔ کیجریوال ہمدرد ہیں تو ان کا چہرہ امیت شاہ سے مشابہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سب چہرے آپس میں مل چکے تھے اور بیچارہ مسلمان حاشیے پر کھڑا آسمان سے فریاد کر رہا تھا۔

شر پسندوں کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔ کوئی ایجنڈا تھا تو بس ایک۔ ڈیوائیڈ اینڈ رول۔ جو غلامی کے وقت ہوا تھا جب دو قومی نظریے نے اس ملک کو تقسیم کردیا تھا۔ مگر آزادی کے وقت کی صورتحال مختلف تھی۔ ہندوستان کی پیدائش میں جمہوریت کو دخل تھا۔ اور یہ ایک باطل نظریہ ایک باطل تہذیب کی پرورش کررہے تھے اور اس لیے پہلے دن سے انھوں نے ہم میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور ملک کو وہاں لے گئے، جہاں دھوپ نہیں تھی، تعلیم نہیں، بیداری نہیں۔

اور جب انھیں احساس ہوا کہ ان کے مہروں نے کام کرنا بند کردیا ہے اور تعلیمی سطح پر بیداری شروع ہوچکی ہے تو وہ ایک قانون لے کر آئے اور جیسا کہ وہ مسلسل بیانات دیتے رہے تھے کہ گھس پیٹھیوں کو۔ پاکستان اور قبرستان بھیجنا ہے اور نیے نیے قانون لا کر اب وہ اس پر عمل بھی کرنے لگے تھے۔ پہلے انھوں نے گھس پیٹھیے کا لفظ استعمال کیا۔ پھر وہ کھل کر قانون بنانے پر آگئے۔ ہمارے پاس پاسپورٹ ہے، آدھار کارڈ ہے، ووٹر آئی ڈی ہے، پین کارڈ ہے تو کیا شہریت کے لیے کچھ اور رہ جاتا ہے؟

وہ منتخب ہوکر آئے اور ان شہریوں کی بدولت آئے ہیں جنہوں نے ان کو ووٹ دیا تھا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ و ہ شہری نہیں۔ ہمارے پاس ہماری شناخت کے لیے کچھ بھی نہیں //زمین کا وہ ٹکڑا بھی اجنبی لگنے لگا ہے، جہاں ہم قدیم زمانے سے رہتے اہے ہیں۔ اور اب کھلی فضا میں زہر ہے۔ لشکر ہے۔ پولیس ہے۔ وائرس ہے اور خوف زدہ ہم ہیں۔ میں شاہد ہوں کہ میں نے ہندوستان کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments