اوور سیز پاکستانیوں کو در پیش مشکلات اور ہمارا رویہ



کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو متاثر کیا اور شدید متاثرہ ممالک بد ترین معاشی بحران کا شکار بھی ہو گئے۔ بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی صورت حال بد ترین ہے۔ جن ممالک نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے ہوئے ہیں، ان کی معیشت کا زیادہ تر دار و مدار اوور سیز کی بھیجے جانے والے ترسیلات زر پر ہوتا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان بھی ایک ایسی ہی ریاست ہے جس کی بر آمدات انتہائی کم ہیں، جب کہ ملکی خزانے میں زر مبادلہ کا کثیر حصہ 88 لاکھ اوور سیز پاکستانی بھیجتے ہیں۔ دنیا بھر میں معاشی پہیا جام ہونے سے بے یقینی کے مہیب و گہرے سائے چھائے ہوئے ہیں اور کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انسانی زندگی کی بحالی میں کتنا وقت لگے گا۔

یورپ اور امریکا کرونا وبا سے تقریباً 80 فی صد متاثر، جب کہ خلیج ریاستیں بھی کرونا وائرس کی شدت سے پریشان ہیں۔ عرب ممالک میں مقیم اوور سیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد واپس وطن آنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے غیر رسمی گفتگو میں متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر غلام دستگیر نے راقم کو آگاہ کیا کہ ہزاروں پاکستانی، وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ حتمی تعداد کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا، کیوں کہ روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ وجوہ جاننے پر انہوں نے بتایا کہ بڑی تعداد وزٹ ویزا کی میعاد ختم ہونے، سکونتی مسائل و دیگر مسئلوں کی بنا پر واپس جانا چاہتے ہیں، جس کا تخمینہ تقریباً 30 ہزار افراد کے قریب ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق سفارت خانے کو اوور سیز پاکستانیوں کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا ہے اور انہیں سیکڑوں کی تعداد میں کالیں اور ہزاروں ای میل آتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وطن جانے والے تمام پاکستانیوں کو واپس بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت انٹرنیشنل ایئر پورٹس و فلائٹس بند ہیں، جس کی وجہ سے دقت کا سامنا ہے۔ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد کا کرونا وبا کے سخت دباؤ میں وطن واپس لانا، پھر انہیں قرنطینہ میں طبی کڑی نگرانی میں رکھنا، رپورٹ کلیئر نہ آنے تک، ان کی گھروں میں واپسی حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ پہلے مرحلے میں تو ریاست نا کام رہی، لیکن دوسرے مرحلے میں کوتاہی نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

پاکستانی محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد عرب ممالک میں مقیم ہے۔ عموماً تلاش روزگار کے لئے جانے والے ہزاروں افراد کی اکثریت، وزٹ ویزا ختم ہونے کے بعد رک جاتی اور غیر قانونی اقامت کے باعث روزگار کے لئے تکالیف اٹھاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے محکموں سے بچنا اور دیگر معاملات کی وجہ سے خوف کی حالت میں اپنے اخراجات پورے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ متحدہ عرب امارات میں جتنے غیر ملکی افراد قانونی طریقے سے آئے، انہیں حکومتی لاک ڈاؤن میں گھر بیٹھے راشن پہنچایا گیا، لیکن اصل مسئلہ اُن لوگوں کا ہے جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، انہیں دُہری پریشانی کا سامنا ہے، ایک جانب انہیں خود کو گرفتاری سے بچانا، تودوسری جانب انہیں خوراک کی بھی ضرورت ہے، عموماً عرب ممالک غیر قانونی تارکین وطن کو ہر سال موقع دیتے ہیں، کہ وہ اپنے مرضی سے واپس جانا چاہیں، سخت قانونی کارروائی سے بچ سکتے ہیں، تاہم انہیں جہاز کا ٹکٹ خود سے لینا ہو گا۔

کبھی کبھار معمولی جرمانے بھی عائد کردیئے جاتے ہیں، لیکن کرونا وبا کے بعد عرب ممالک میں سخت لاک ڈاؤن و کرفیو دیکھنے میں آیا اور شہریوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر سخت پابندی اور خلاف وزری پر بھاری جرمانے کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ان ممالک میں قانون پر سختی سے عمل کے باعث خلاف ورزیاں بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے۔ اس بار عرب ممالک نے یہ سہولت بھی دی کہ غیر قانونی مقیم بیرون ملک کے شہریوں کے جانے کے اخراجات ریاست ادا کرے گی۔ جس کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد نے اپنے ممالک کے سفارت خانوں کا رخ کیا، صرف متحدہ عرب امارات سے کم و بیش 30 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو واپس لانا چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔

وزٹ پر جانے والے یا دیگر اوور سیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یورپ، امریکا سمیت دیگر ممالک سے واپس وطن آنا شروع ہو گئی ہے۔ دو ہزار افراد گزشتہ دنوں خصوصی فلائٹ آپریشن میں لائے جا چکے ہیں، جب کہ دوسرے مرحلے کی ابتدا میں بنکاک اور سعودیہ میں پھنسے دو سو سے زائد پاکستانیوں کو بھی واپس وطن لایا گیا۔ وفاق و صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن میں 30 اپریل تک توسیع کر چکی ہیں۔ کرونا وائرس سے صحت مند ہونے والوں مریضوں کی تعداد بہت کم ہے، جب کہ کرونا ٹیسٹ کیے جانے کی رفتار، سیاسی بیان بازی و الزام تراشیوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کے حوالے سے اچھی پیش گوئی بھی نہیں کی، جس سے پاکستانی معیشت کے مستقبل کا نقشہ حوصلہ افزا نظر نہیں آ رہا۔ دوسری بڑی پریشانی متوقع ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا وطن واپس آنا ترسیلات زر میں کمی کا بڑا سبب بنے گا، نیز بے روزگاری میں مزید اضافہ ہونے کے خدشات ہیں۔

دنیا کرونا وبا سے اتحاد و یک جہتی کے ساتھ جنگ کر رہی ہے، بڑے بڑے پیکج ریلیف دیے لیکن پاکستان میں سب الٹا ہو رہا ہے۔ کرونا وبا کو لے کر ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی و الزام تراشیاں عروج پر ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ نے کرونا وبا پر جس طرح وفاق و صوبہ سندھ پر اپنی آبزوریشن دی، وہ نوشتہ دیوار ہے کہ عوا م کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اربوں روپوں کہاں کہاں اور کس طرح، کس نے خرچ کیے اس کا سارا پول ایک دن سامنے تو آ ہی جائے گا، لیکن اس وقت جو یک جہتی و اتحاد کی ضرورت ہے، اس کا ادارک سیاسی رہ نماؤں، وزرا اور مشیروں کو کیوں نہیں ہو رہا؟

دیار غیر میں تارکین وطن جب سیاسی اختلافات اور کرونا وبا کی آڑ میں بے انتظامی، خرد برد اور ریلیف فنڈ میں رشوت کی خبریں سنتے پڑھتے ہوں گے، تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ شاید اس کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے۔ 22 کروڑ پاکستانی اور لاکھوں تارکین وطن کو ”تہرے عذاب“ میں مبتلا کرنے کے بجائے تمام سیاسی و فروعی اختلافات کو فی الوقت نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپس میں لڑنے کے بجائے ہاتھ دھو کر صرف کرونا سے لڑنا ہے، کیوں کہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments