قومی لٹیرے کب انجام کو پہنچیں گے؟



اس ملک پر طویل عرصے تک ایسے افراد کی حکمرانی رہی ہے، جنہوں نے قومی املاک کو گروی رکھا، ملکی مفاد کے بر عکس پالیسیاں بنائیں اور ہمیشہ زیادہ کک بیکس والے منصوبہ سازی کو ترجیح دی۔ یہ قومی لٹیرے اپنے دور اقتدار میں قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے، مگر کسی نے لب کشائی نہیں کی، لیکن آج ہر کوئی آئی پی پیز کو سبسڈی دینے پر باتیں کر رہا ہے، 13 برس میں 4802 ارب کے نقصان کا رونا رویا جا رہا ہے، عامتہ الناس بھی اتنے بھاری نقصان پر پریشان ہیں، حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے مفادات کو اقتدار میں آ نے کے بعد تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں۔

2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی تو اس نے قوم کو لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارا دلوانے کے نام پر آئی پی پیز کو 480 ارب روپے کی ادائیگیاں کر کے قوم کو لالی پاپ دیا کہ اب جان لیوا لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی، حالاں کہ بروقت بجلی نہ دینے پر آئی پی پیز پر 23 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ مسلم لیگی (ن) حکومت نے نا صرف 23 ارب روپے کا جرمانہ معاف کیا، بلکہ بغیر بجلی خریدے آئی پی پیز کو ساڑھے 32 ارب روپے بھی ادا کر دیے گئے۔

اس سے قبل 1994ء میں پیپلز پارٹی نے آئی پی پیز کے ساتھ 13 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا انوکھا معاہدہ کیا تھا، اس معاہدے کے تحت آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں انہیں پیسے ملتے رہیں گے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی آبزرویشن اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ کس طرح ان معاہدوں میں بے ضابطگیاں کی گئیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے وزرا، عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے پر تنقید تو کرتے رہے، لیکن کسی ایک نے بھی ان معاہدوں کو منسوخ یا نظر ثانی کرنے پر زور نہیں دیا، کیوں کہ اندر سے دونوں کے مفادات یک ساں تھے، جس کے باعث آج قوم سابق حکمران پارٹیوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف جب سے بر سر اقتدار آئی ہے، کرپشن کے خاتمے اور احتسابی عمل کو پایہء تکمیل تک پہنچانے میں سرگرداں ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے ایک سے بڑھ کر ایک اسکینڈل منظر عام پر آ رہے ہیں، پاور سیکٹر اسکینڈل پر انکوائری رپورٹ نے تو احکام بالا کی نیندیں اڑا کر رکھی دی ہیں۔ پاور سیکٹر میں ہونے والی بد عنوانی کے بارے میں 278 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں بڑے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ 1994ء کے بعد آئی پی پیز نے قومی خزانے سے 350 ارب روپے غیر منصفانہ طور پر وصول کیے جس کے باعث بجلی کے پلانٹس 15 کے بجائے 50 سے 70 فی صد تک منافع لیتے رہے ہیں۔

اس میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ 9 رکنی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ممبروں میں سے کسی نے بھی کسی نکتے سے اختلاف نہیں کیا، بلکہ متفق طور پر رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ٹیک اوور کی بنیاد پر کپیسٹی پیمنٹ کا فارمولا ختم کر کے 100 ارب روپے ریکور کیے جائیں، کیوں کہ اگر کپیسٹی پیمنٹ کے نام پر آئی پی پیز کو پیسے دینے کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے تو پھر ملک کو 23 ارب ڈالر تک نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جب کہ قرضوں تلے دبا ملک، قطعی طور پر اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، انکوائری رپورٹ میں پاور پلانٹس کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا ہے۔

در حقیقت پارلیمنٹ میں بیٹھے عوام کے منتخب نمایندوں کو غریب عوام کی کوئی پروا نہیں، انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اسی لیے آج تک ملک میں لگے پاور پلانٹس کی قیمتوں کا تعین نہیں ہو سکا اور نا ہی کسی نے کار گزاری دکھانے کی کوشش کی ہے، موجودہ وزیر اعظم کو پیش کردہ رپورٹ کے بعد اس بات کی امید قائم ہوئی ہے کہ پاور پلانٹس کی قیمتوں کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔

آئی پی پیز والے پاور پلانٹ کی لاگت اسی وجہ سے زیادہ بتاتے ہیں، تا کہ اپنا ٹیرف زیادہ وصول کر سکیں، دوسرا سینٹ میں دیے گئے ٹیرف کو ڈالرز میں بدل دیا جاتا ہے، تا کہ صارفین سے زیادہ سے زیادہ منافع بٹورا جا سکے، اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ مہنگے ٹیرف پر حکومت کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے، جس کے باعث صارفین کے بجائے اربوں روپے کا بوجھ قومی خزانے پر پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہماری ریگولیٹری اتھارٹی میں بھی اتنی قابلیت نہیں کہ وہ اداروں کو ریگولیٹ کر سکے، جب کہ پاور سیکٹر میں بھی بار بار ان افراد کی ملازمت میں توسیع کی جاتی ہے، جو پہلے ہی قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔

یہ امر واضح ہے کہ ہر دور اقتدار میں حکمرانوں نے اپنے مفاد کی خاطر ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ وزیر اعظم عمران خان تمام اسکینڈلز پر تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دے رہے ہیں، جن کی رپورٹس یکے بعد دیگرے منظر عام پر آ رہی ہیں۔ اس سے قبل آٹا، چینی پر بھی تحقیق ہو چکی ہیں، جب کہ دس برسوں میں لیے جانے والے قرضوں کی رپورٹ بھی وزیر اعظم نے مانگ رکھی ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان ان رپورٹس کی روشنی میں اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ملک و قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے مافیا کے گرد شکنجہ کس دیتے ہیں، تو نہ صرف اپنے وعدے پورے کرنے میں سرخ رُو ہوں گے، بلکہ یہ اس قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا اور قوم انہیں اپنے محسنوں کی طرح یاد رکھے گی، لیکن اگر تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد بھی ہمیشہ کی طرح مافیا بچ نکلے توعوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

عوام ایسے تحقیقاتی کمشن اور کمیٹیوں کی تشکیل اور ان کی پیش کردہ رپورٹس پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جو وقت کی دھول میں کہیں گم ہو گئیں۔ آخر کرپٹ عناصر کب اپنے انجام کو پہنچیں گے؟ عوام تحقیقاتی رپوٹس کی روشنی میں سخت عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ پوری قوم وزیر اعظم عمران خان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ قومی دولت کی لوٹی ہوئی پائی پائی کرپٹ عناصر سے وصول کر کے نا صرف قومی خزانے میں جمع کروائیں گے، بلکہ مجرموں کو نشان عبرت بھی بنائیں گے۔ عوام قومی لٹیروں کا عبرت ناک انجام دیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ آیندہ آنے والے کسی حکمران کو قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی جرات نہ ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments