مسکرائیے! آپ ’پاگل‘ نہیں ہیں


آج سے کوئی پچیس تیس سال قبل اِس ملک میں علم نفسیات بڑی حد تک ایک چھوٹے سے پودے کے مانند تھا۔ ایک پودا جو ’پنیری‘ میں لگا تھا۔ نفسیاتی معالج تو بہت کم تھے لیکن اُن معالجین کے اپوائنٹمنٹ بک پر گرد کی دبیز تہہ جمتی رہتی تھی۔ آج سے محض تیرہ سال قبل جب راقم نے نفسیاتی علاج کی تربیت حاصل کرنا شروع کی، تو مریض بہت مشکل سے ملتے تھے۔ ادارے میں معالج زیادہ ہوتے اورمریض کم۔ پھر نیا زمانہ آیا اپنے ساتھ گوگو لایا، گوگو پان مسالے کی کیا بات!

اب یہ حال ہے کہ نفسیاتی معالج کراچی شہر میں موبائل اسنیچرز سے بھی زیادہ ہیں۔ جگہ جگہ دکانیں کھلی ہیں اورمریض بھی ’الحمد للہ‘ آ رہے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے ا ِس شہر میں ہر کسی کو اپنا بچہ ’ایشان اوستی‘ لگتا ہے۔ ہر کسی کو عامر خان کی تلاش ہے کہ جو اس کے بچے کو زمین کے تارے سے آسمان کا تارا بنا دے۔ پھر جو بچے نہیں ہیں انہوں نے بھی اب انٹرنیٹ کی بدولت نفسیات کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لیا ہے اور ان کو بھی لگنے لگا ہے کہ جیسے ان کو بھی مرمت یا کم از کم سروسنگ کی ضرورت تو ہے ہی۔

دوا دینے والے سائیکیاٹرسٹ چوڑے ہو کر بتاتے ہیں کہ اصل نفسیات دان تو وہی ہیں۔ پھر جب مریض اُن سے لمبی باتیں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کسی سائیکولوجسٹ کا پتا، مریض کو تھما دیتے ہیں اور تاکید کر دیتے ہیں کہ ’دوا مجھی سے لیجیے گا‘۔ اِس ’کھو کھو‘ کے کھیل میں مریض کی گرہ سے خاصا مال ڈھیلا کر لیا جاتا ہے۔ لوگ ایم اے نفسیات کر کے اپنے نام میں ڈاکٹر لگا لیتے ہیں، اور ساتھ ہی پیار سے ’کنسلٹنٹ سائیکولوجسٹ‘ کا لاحقہ بھی جوڑ لیتے ہیں۔

کوئی ساتھ ہی ’اسپیشلسٹ اِن چائلڈ کاونسلنگ، فیملی کاونسلنگ‘ وغیرہ کے تمغے خود کو خود ہی عنایت کرتا ہے۔ پچاس منٹ کے سیشن کی فیس پانچ پانچ ہزار روپے لی جاتی ہے۔ تشخیص کی فیس الگ اور خاصی بھاری ہوتی ہے۔ اِس دھندے کی کچھ سستی دکانیں بھی بازار میں موجود ہیں۔ وہاں یہ سراب تھوڑا سستا ملتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ بیچنے والا بیچتا کیا ہے اور خریدنے والا خریدتا کیا ہے، یہ کوئی جانتا ہی نہیں۔ ذہنی صحت ہے کیا اور یہ مرمت یا سروسنگ (المعروف بہ ’سائیکو تھراپی‘) سے ہوتا کیا ہے؟

پھر عجیب بات یہ بھی ہے کہ سائکوسس یعنی مطلق دیوانگی کا علاج ہماری سائیکولوجسٹ برادری کو آتا نہیں۔ مایوسی کی شدید کیفیتوں کا علاج بھی اُن سے ہوتا نہیں۔ ’مینیا‘ (یعنی جنون) کا علاج وہ کر سکتے نہیں۔ تمام مشکل صورتوں میں سائیکیاٹرسٹ سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ اور وہ لوگ مزے سے ہر مریض کو ایک ’اینٹی سائیکوٹک‘ ، ایک ’انٹی مینک‘، ایک ’انٹی ڈپریسنٹ‘ الغرض ہر نفسیاتی عارضے کی ایک ایک دوا لکھ مارتے ہیں کہ کوئی تو کام کرے گی ہی۔ اور واقعی کوئی نہ کوئی دوا لگ جاتی ہے۔ مریض تھوڑا ’بہتر‘ ہوجاتا ہے اور پھر سائیکولوجسٹ برادری اپنی باتوں کا جال لے کر حاضر۔ اب کچھ تو سائیکولوجسٹ کی مسکراہٹ اور کچھ ’پلیسیبو افیکٹ‘ کام کرتا ہے اور مریض کسی حد تک دنیا داری کے قابل یا کم از کم وہ اور اس کے اہل خانہ اِس دھوکے کا شکار ہو ہی جاتے ہیں۔

مگر ہماری سائکولوجسٹ براداری کے اصل گاہک شدید نفسیاتی مشکلات کا شکار لوگ نہیں۔ یعنی یوں سمجھیے کہ مرمت والی گاڑیاں ان کو زیادہ لبھاتی نہیں۔ بلکہ ان کی نظر تو سروسنگ والے گاہکوں پر ہوتی ہے۔ بہت فاقوں کہ بعد ہمارے سائیکولوجسٹس کو ایک لفظ ’سی بی ٹی‘ یاد ہوا ہے اور کچھ نے ’آر ای بی ٹی‘ لفظ بھی رٹ لیا ہے۔ یہ منجن بھاری امراض پر چلتا نہیں اور اگر چلے بھی تو ان کو کب چلانا آتا ہے؟ اِن شفاء خانوں میں سائیکولوجسٹس کے لئے سب سے پرکشش چیز ہے بس فیس کی رسید۔

وہ مل گئی تو اور کیا چاہیے؟ مگر سوال گھوم پھر کر وہی ہے کہ اس رسید کا مطلب کیا ہے؟ یہ کس چیز کی رسید ہے؟ بیچنے والے نے کیا بیچا؟ اور خریدنے والے نے کیا خریدا؟ اس بات کا صحیح جواب یہ ہے کہ در اصل یہ اِس بات کی رسید ہے کہ مریض سے مرض دور کرنے کی کوشش کی گئی اور اب وہ کسی حد تک ویسا ہی ہے جیسا کہ وہ مرض سے پہلے تھا۔

مگر فرض کرئے کہ سارے دو نمبر سائیکولوجسٹ ایک طرف کردیے جائیں، سارے ایم اے، پی ایم ڈی یا ایم فل کر کے خود کو کلینکل سائیکولوجسٹ گرداننے والے جعل ساز، کسی جادو سے ایک طرف ہٹ جائیں اور صحیح اور اصلی لوگ ہی باقی رہیں جو کہ کلینکل سائیکولوجی کی پی ایچ ڈی تک کی تربیت اور ڈگری رکھتے ہوں تو بھی کیا سائیکو تھراپی حقیقی معنوں میں نفسیاتی علاج ہے یا وہ انسان کو محض حالات سے سمجھوتا کرنے اور ہر حال میں خود کو ہی تبدیل کرنے اور سماج کے آگے ہتھیار ڈال دینے کی ہی تلقین ہے؟

یعنی جو لوگ اِس سنگ دل سماج سے ٹوٹ جاتے ہیں، جن کو یہ بھیانک سرمایہ پرست خود غرض اور منافق سماج سمجھ نہیں آتا، جو اِس دھوکے کی دنیا کی راہ سے لڑکھڑا جاتے ہیں اُن سب کو یہ نفسیاتی معالج دوبارہ اِنہی التباسات میں الجھا کر اِسی سماج سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ وہ ان کو پرانی ’تنخواہ‘ ہی پر پرانی ہی دنیا میں اپنی نوکیں کاٹ کر ’فٹ‘ ہو جانے کا رستہ دکھاتے ہیں۔ آج کے معروف علم نفسیات کے پاس نہ کوئی ذہنی صحت کا ماڈل ہے نا ہی کوئی ذہنی بیماری کا ماڈل۔ منتر بس یہ ہے:
”سنو، اِسی دنیا کے پرُزے بنے رہو
جبر کو سر جھکا کر برداشت کرو
اگر جابر ہو اور جبر کرنے سے دل تنگ ہو گیا ہے تو واپس جاؤ اور جبر کیے جاؤ
اسی سرمایہ داری کے غلام رہو
اسی استحصال کے شکار بھی رہو اور حصہ بھی رہو
اور اس زندگی سے بیزار مت ہو”

یہ وہ منتر ہے جو کہ ہمیشہ ہر سماج نے اپنے سے مختلف انسانوں کو سنایا تھا۔ یاد رکھیے کہ ہر دور میں مختلف سوچ کے حامل انسانوں کو پاگل ہی کہا گیا ہے۔ آج کی دنیا میں جو بے کیفی ہے، جو بدمزگی ہے جو خلا ہے، وہ کبھی کسی نفسیاتی علاج سے پر نہیں ہو سکتا۔ انسانوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو اب لالچ اور مسابقت کے اصول پر قائم کر لیا ہے۔ اب لوگوں کو اس چشمے کاپانی پلایا جاتا ہے، جس میں پیاس شامل ہے۔ پیاس بجھتی نہیں بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہ سیکولر اور لبرل آرڈر (جو کہ اب حقیقتاً ہر سماج میں ہی در آیا ہے) اپنی نہاد ہی میں جمال کا دشمن ہے۔

مشینوں نے اپنی ’میکانیت‘ سے، جمہوریت نے اپنی ’عامیت‘ سے، اور ترقی نے چیزوں کی ’کثرت‘ سے زندگی کو بے رنگ کر دیا ہے۔ کسی کے پاس کسی کی بات سننے کا وقت نہیں، کسی کو کسی کی فکر نہیں۔ چوکی دار سے بھی بات کرو تو یوں لگتا ہے کہ وہ تو اتنا اہم ہے کہ دنیا تو در اصل وہی چلا رہا ہے مگر غور کرو تو جمہوری وزیر اعظم تک اتنا کم زور ہے کہ وہ کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ سرمایہ داری نظام نے ہر شے کو جنس ِ بازار بنا دیا۔ پیٹ اور جنس کی بھوک بڑھ گئی اور پولٹری فارم کی طرح ہر شے کی صنعتی پیداوار ہونے لگی ہے۔

لوگ برائلر مرغی کھاتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ منہ میں گوشت نہیں ربڑ کا ٹکڑا ہے۔ جنس کے درمیان بھی سرمایہ داری نے اپنی ربڑ کی دکان کھولی ہے۔ ہر شے بے لمس۔ روحانی ضروریات بھی مذہبی پروگرام دیکھ کر پوری ہوتی ہیں (پروگرام کے درمیان شان مسالے اور ایٹریم سنیما کے اشتہارات آتے ہیں) جب لوگ اِس میکانیت سے ٹوٹ سے جاتے ہیں تو نفسیات کی دکان اپنی رسیدوں کے ساتھ سامنے چوراہے پر کھل جاتی ہے۔ مسکرائیے آپ زندہ ہیں اور خوش ہیں۔ مسکرائیے! آپ پاگل نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments