باقر خانی: ایک پیار بھری کہانی


باقر خانی مغلئی دور کی ایک ایسی یادگار ہے جو مشرقی بنگال کے شہر ڈھاکہ میں پہلی دفعہ متعارف ہوئی اور رفتہ رفتہ پورے خطے میں مقبول ہو گئی۔ تاہم وہ شے جسے اس خطے کے طول و ارض میں پھیلے کروڑوں لوگ بلا تفریق رنگ و نسل نہایت ذوق و شوق سے کھاتے ہیں محض کھا کر بھول جانے والی کوئی چیز نہیں۔ یہ ایک ایسی پریم کتھا کی یادگار ہے جو سچ ہو نہ ہو دلچسپ ضرور ہے
اگر بقول شاعر ایک شہنشاہ نے تاج محل بنا کر ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا ہے تو شاید متوسط اور غریب طبقے نے باقر خانی کی شکل میں عشق و محبت کی ایک کہانی کو امر کر کے حساب چکا دیا ہے۔ باقر خانی کسی ملکہ کے مزار کے مرمریں فرش کی طرح ٹھنڈی اور بے کیف نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کی حرارت سے بھرپور ایک ایسی شے ہے جو ڈھاکہ سے ڈسکہ۔ اور سلہٹ سے سیالکوٹ تک روزانہ کروڑوں لوگوں کے دسترخوان کی زینت بن کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے، انھیں لطف کیف اور خوشی دیتی ہے

کہانی کے مطابق بنگال کے پہلے نواب مرشد قلی خان جو محمّد ہادی کے نام سے جانے جاتے تھے کا ایک لے پالک بیٹا آغا باقر خان کے نام سے تھا۔ بعد میں آغا باقر خان نواب سراج الدولہ کی فوج میں جنرل بنے اور چٹاگانک میں تعینات ہوئے۔ یہاں وہ آرام باغ کی خانی بیگم نامی ایک رقاصہ کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ شومئی قسمت کہ خانی بیگم پر شہر کے کوتوال جونیل خان کی نظریں بھی لگی ہوئی تھیں جو کہ ایک وزیر کا بیٹا بھی تھا۔ جونیل خان کی پیش قدمیوں پر خانی بیگم نے انکار کیا تو وہ بپھر گیا۔ جب کسی ولن کی طرح جونیل خان نے خانی بیگم کو زیادہ پریشان کرنا شروع کیا جسے موجودہ دور میں ہراسمنٹ کہیں گے تو ہیرو کی طرح باقر خان کود پڑے۔ نوابی طور طریقوں کے مطابق اختلاف کو نبٹانے کے لئے دونوں کے درمیان شمشیر زنی تک بات پہنچ گئی جس میں باقر خان نے جونیل خان کو شکست دی لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا.

اسی اثنا میں جونیل خان کے دو دوستوں نے جو شاید میڈیا میں تھے انہوں نے اس کے باپ جہان دار خان تک یہ فیک نیوز پہنچائی کہ باقر خان نے جونیل خان کو قتل کر دیا ہے۔ وزیر جہان دار خان نے کسی بادشاہ کی طرح حکم جاری کیا کہ باقر خان کو شیر کے پنچرے میں ڈال دیا جائے۔ تاہم باقر خان اب کی بار کسی گلیڈیٹر کی طرح پنجرے میں ہی شیر کو مار ڈالتا ہے۔ اس دوران جونیل خان کے قتل کی نیوز، فیک ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن اپنے میڈیا والے مخبروں کو غلط خبر پر سزا دینے کی بجاے، وزیر جہاندار خان اور جونیل خان  بے چاری خانی بیگم کو اغوا کر کہ جنوبی بنگال لے جاتے ہیں.

باقر خان ان کا پیچھا کرتے ہوئے جنوبی بنگال پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد کہانی میں ڈرامائی قسم کا یو ٹرن اس وقت آتا ہے جب جونیل خان خانی بیگم کو نادانستہ طور پر مار ڈالتا ہے اور خود اپنے باپ جہنادار خان کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ بعد میں باقر وہاں پر خانی بیگم کا مزار تعمیر کرتے ہیں اور علاقہ بقر گنج کے نام سے معروف ہو جاتا ہے۔ عشق اور محبت کی اس داستان سے متاثر ہو کر مقامی نانبائی اپنی مقبول پروڈکٹ کا نام ”باقر خانی“ رکھ دیتے ہیں۔ پھر باقر اور خانی کی کہانی وہیں پیچھے رہ گئی اور ”باقر خانی“ بنگال سے نکل کردیسی پیزا بن کر کشمیر حیدرآباد اور پنجاب میں مقبول ہو گئی۔ کیا خوب ہو مغل ا عظم کی طرز پر ایک فلم بنائی جائے جس کا ٹائٹل ہو، باقر خانی، ایک پیار بھری کہانی

کچھ عرصہ قبل ایک معروف بنگالی گلوکار کی لوک نظم “آلو بیچو، چھولا بیچو، بیچو باقر خانی ”کافی مقبول ہوئی جو کہ یو ٹیوب پر ہے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments