مورتیاں تراشنے والاعرفی



کہانی ایک پتھر ہے اورافسانہ نگاری مورتیاں تراشنے جیسا عمل ہے۔ افسانہ نگار اپنی ہتھوڑی چھینی سے کہانی کے پتھر کو کس پہلو سے تراشتا ہے یہ اس کا اختیار ہے۔ اچھا افسانہ نگار وہی ہے جو اپنے اوزار سے تراش خراش کے اس عمل کو بہت سبھاؤسے جاری رکھتا ہے اور ایک اسلوب وضع کرتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آرائش اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ پتھرغائب ہوکررہ جاتا ہے اور کچھ مورتی ساز ایسے بھی ہیں جو پتھر کو جوں کا توں پیش کردیتے ہیں۔ یعنی تراش کے اس عمل میں توازن بھی اہم ہے۔

میں افسانہ نگاری کی متوازن تراش خراش سے ہمیشہ متاثر ہوئی ہوں۔ یہ تراش ہی دراصل فنکار کے فن کا اظہار ہے جو مبہوت کردیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی مبہوت مجھے عرفان احمد عرفی کے افسانوی مجموعوں ”پاؤں“ اور ”کنٹرول روم“ کے افسانوں نے بھی کیا۔ جن کے مطالعے سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ وہ ہتھوڑی چھینی سے جو سب سے پہلا کام کرتا ہے وہ کہانی کا اسلوب ہے۔ وہ مسلسل ضربیں لگاتا رہتا ہے تاوقتیکہ اسلوب نکھر کر سامنے نہ آجائے۔ اس کے بیشتر افسانے بیانیہ کی تکنیک میں ہیں اور یہی اس کی طاقت ہے۔ وہ اپنے مضبوط بیانیے کے ذریعے سے کہانی کے جملوں کو بناتا، توڑتا اور نکھارتا چلا جاتا ہے۔ اس کے اسلوب کی ایک مثال دیکھیں :

”وہ برسوں سے گھر کے پردے، چادریں، دستاریں، دوپٹے، سرہانوں کے غلاف اور نجانے کیا کیا دھو رہی تھی۔ ایسے جان مار کر دھوتی جیسے میل ان میں نہیں اس کے اپنے آپ میں ہو، پھر جب تک صحن میں دھوپ تیز رہتی، تار پر خود کو پھیلائے لٹکی رہتی۔ جب اس کا روآں روآں سوکھ جاتا تو گٹھڑی بن جاتی۔ پھر استری گرماتی۔ ایک ایک سلوٹ پر جب پانی کے ٹھنڈے چھینٹے پھینک، استری رکھتی تو شرشر کرتی آواز اس کے بدن کو گدگداتی اور ٹکور کی ایک لہر سارے جسم میں سرایت کرجاتی۔

اس کے باپ اور بھائیوں کی آنکھیں اسے کیتلی میں کھولنے کو کہتیں۔ اور وہ ایسا ہی کرتی پھر پیالیوں میں بٹ کر پیش ہوجاتی۔ سب چسکیاں بھر بھر اس کا نام و نشان مٹا دیتے اور پھر شام رات کے لحاف میں سر چھپا لیتی۔ وہ دوبارہ طشتری میں آٹے کی طرح ڈھیر ہوجاتی۔ ” (کہانی:ایک رات یوں ہوا، مجموعہ:کنٹرول روم)

عرفان احمد عرفی کے قریباً ہر افسانے میں ہمیں ایسا ہی آہنگ ملے گا۔ یہ آہنگ لفظوں کی تکرار اور تلازمات کے ذریعے سے پیدا کیا جاتاہے۔ اس نثر کی خوبصورتی ایک خاص انداز کی شعریت کی دین ہے جسے نثری آہنگ کہنا زیادہ بہتر ہے یہ آہنگ اصوات، تلازمات اورجزئیات کی ترتیب کے ذریعے سے پیدا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ واقعہ وہی ہے کہ ایک عورت کی جنسی تشنگی کا بیان ہے لیکن افسانہ نگار کی ٹریٹمنٹ نے اسے منفرد کردیا ہے۔ افسانہ نگار نے کردار کی جنسی تشنگی کا جس غیر محسوس انداز میں کروایاہے وہی کمال بھی ہے۔

افسانہ نگاری کے جتنے بھی اہم عناصر ہیں وہ سب اس کے اسلوب پر ہی قائم ہیں۔ اس کے ہاں منظر کشی، مکالمہ نگاری، کردار نگاری اپنے روایتی معنوں میں نہیں ہے۔ وہ کردار کو اس کے حلیے، چال ڈھال وغیرہ سے متعارف نہیں کرواتا بلکہ اپنے اسلوب کے ذریعے سے جو فضا وہ قائم کرتے ہیں اس میں اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔

یہ بات اہم ہے کہ تخلیق کار اپنے اظہار کے لیے کس صنف یعنی جنس کا اظہار کررہا ہے۔ یہ اس کا بالکل ذاتی اور نازک سا معاملہ ہے۔ عرفان احمد عرفی کے بیشتر افسانوں کی نمایاں کردار عورت ہے۔ لیکن یہاں وہ عورت نہیں ہے جو اکثر اردو ناول کی ہیروئن کے طور پر آتی ہے اور ہیرو کی معشوقہ کے گلیمر میں پیش ہوتی ہے۔ یہاں وہ صرف عورت ہے اوربیٹی، بہن، ماں، سٹوڈنٹ اور ایکٹریس وغیرہ کے طور پر آتی ہے۔ و ہ لوئر مڈل کلاس سے ہے اور یہ اس کی وہ کہانیاں ہیں جو وہ تنہائی میں خود کو سناتی ہے۔

لیکن یہاں Twistپھر عرفان احمد عرفی کے اسلوب کا ہوتاہے۔ وہ جنسی تشنگی، غربت، تنہائی، مامتا، شناخت جیسے موضوعات کو اپنے اسلوب کی مدد سے تازگی دیتا ہے۔ اسی طرح جب عرفان احمد عرفی فرد کے المیے سے نکل کر سماج کا رخ کرتا ہے تو وہاں اپنا لوکیل بھی بدل لیتا ہے۔ اجتماعی موضوعات کا لوکیل بھی اجتماع پر مبنی ہوتا ہے جیسے تھیٹر، ٹاک شوز، سینما گھر۔ بالکل ویسے ہی جیسے داخلی اور خارجی جنگوں کا لوکیل الگ الگ ہوتا ہے، سماجی و سیاسی موضوعات کی ٹریٹمنٹ بھی اس کے ہاں مختلف انداز میں نظر آتی ہے۔ یہاں بھی وہ ترپ کا جو پتہ کھیل جاتا ہے وہ اس کا اسلوب ہی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments