دوستوں کے نام نیرنگ نامہ


یاد کرنے پر بھی صحیح سے تو ذہن میں نہیں آتا لیکن ”نیرنگ“ سے پہلے تعارف کو میں نے نہ جانے کیوں اقرار بھائی، جنہیں دنیا سرِعام والے سید اقرارالحسن کے نام سے پہچانتی ہے، کے کھاتے میں رکھا ہوا ہے کہ یہ ان کی بدولت تھا، یا تو ان کے ہمراہ گئے تھے یا انہوں نے تجویز کیا تھا کہ لاہور میں اگر کوئی پرسکون سی جگہ چاہو جہاں چائے بھی اچھی ملتی ہو، جدھر دوستوں کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ بھی سکو، جہاں بہت معیاری کتب کا ذخیرہ بھی موجود ہو اور جس کی دیواروں پر نہایت اعلیٰ پائے کی اوریجنل پینٹنگز بھی آویزاں ہوں تو لاہور کیا شاید پورے پاکستان میں نیرنگ کے مقابلے کی کوئی جگہ نہ ملے، ان میں سے کوئی ایک بھی ترغیب مجھے بھٹکانے کے لیے کافی ہوتی، یہاں تو پورا پیکج تھا۔ یوں کوئی پندرہ برس قبل جب میں ابھی کالج میں ہی پڑھ رہا تھا تو میں نے نیرنگ آنا جانا شروع کر دیا۔

اور ان پندرہ برس میں کیا کچھ نہیں بیتا۔ یونیورسٹی کے دنوں میں آوک جاوک ذرا کم تھی کہ گورنمنٹ کالج خود میں ہی اتنا مصروف رکھتا ہے کہ باہر کی دنیا کم کم ہی نظر آتی یے۔ لیکن ایک دو میڈیا ہاؤسز میں کام کے دوران سیٹ پر آتے جاتے نیرنگ ہمیشہ رستے میں پڑا کرتا تھا۔ دوستوں سے ملاقات کی جگہ یہی ٹھہرتی۔ ادھر ہی میں نے امیمہ کے کہنے پر پہلی دفعہ بلیک کافی زہر مار کی تھی اور اگر بعد کی زندگی میں ڈاکٹر فرحان عبادت کی مشفقانہ افسری میں کام نہ کرنا پڑتا تو شاید تادم مرگ میں بلیک کافی سے متنفر ہی رہتا مگر فرحان صاحب نے مجھے کافی میں صرف بلیک کافی پر ہی لگا دیا، یہ الگ بات کہ ابھی تک ان کے دفتر میں پیش کی جانے والی کافی جیسا ذائقہ کہیں اور نصیب نہیں ہوا دفتر سے ان کے تبادلے کے بعد کافی کا سلسلہ تو ویسے ہی موقوف ہو گیا ہے۔ خیر نیرنگ کے ذکر کے دوران میں یہ ایک جملہ معترضہ تھا جو بقول یوسفی پورے پیراگراف پر محیط ہو گیا ہے۔

تو دوبارہ نیرنگ ہی چلتے ہیں، اسی طرح جب کومل انعم ارحم لوگوں کے ساتھ بہت دیر یہی بحث ہوتی رہتی تھی کہ آج کہاں بیٹھا جائے تو کومل اپنی مخصوص اور مانوس سی بیزاری کے ساتھ بولا کرتی تھی کہ جانا تو آخر آپ نے نیرنگ ہی ہے۔ آخر تو نہ جانے اس مضمون کا کس طور ہو مگر قلم کو نیرنگ کی طرف ہی موڑنا پڑے گا۔

نیرنگ جانے کے پیچھے جگہ کا فسوں تو تھا ہی لیکن آج بہت سالوں کے بعد مجھے لگتا ہے کہ وہ صرف جگہ یا ماحول سے مخصوص نہیں تھا۔ یہ تو وہ لوگ تھے جن کے طفیل نیرنگ میری، میرے سب بہت اپنوں کی زندگی کا نہایت زندہ حوالہ بنا ہوا ہے۔ آج لاہور میرے علاوہ کسی کا بھی مستقر نہیں رہا لیکن مجھے یقین ہے کہ کومل کے جرمنی ارحم کے اسلام آباد اور انعم کے لائلپور سے لاہور پہنچتے ہی ہم سب جس ایک جگہ اکٹھا ہو کر گزری زندگی کی کتھا بغیر دوسرے کی سنے اپنی اپنی ہی سناتے چاہیں گے وہ جگہ نیرنگ ہی ہو گی۔

ہم چار یا ہم تین یا ہم دو یا ہم اکیلے اکیلے لاہور میں جس سے ملنا چاہتے تھے وہ یہی جگہ تھی۔ اور کبھی ہم وہاں مستقل بیٹھنے والے دوسرے لوگوں سے ملنے کا بھی فیصلہ کر لیتے۔ وہ میز جس پر اردو ادب میں نامور ترین انتظار حسین اپنے احباب کے ہمراہ بیٹھا کرتے تھے اس پر اگرچہ ہم پہلی دفعہ بہت ڈرتے ڈرتے پہنچے تھے لیکن بعد ازاں ہم اس میز کے گرد جمنے والی ہفتہ وار نشست کا مستقل حصہ بن گئے۔ اس نشست کے شرکاء چائے وغیرہ کا بل آپس میں چندہ کر کے دیا کرتے تھے، پہلی دفعہ ہم چاروں بھی پیسے دینے لگے تو مسعود اشعر صاحب نے کہا تھا آپ ہمارے مہمان ہیں لیکن اگر آپ لوگ آئندہ بھی آتے رہے تو دس بار کے بعد آپ لوگوں کو پیسے دینا ہوں گے۔

انہیں شاید لگا ہو گا کہ یہ بچے بھاگ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو پایا، بلکہ ہمیں باقاعدہ اشتیاق رہنے لگا۔ اس میز پر ہم نے انتظار حسین صاحب کی سالگرہ منائی، خالد احمد صاحب کے گھر سے بنے سینڈوچز اور گلنار صاحبہ کے گھر سے آئی نیاز اڑائی۔ زاہد ڈار سے ذاتی تعلق قائم ہوا۔ اکرام اللہ صاحب سے گیان لینے کی کوشش کی، ڈاکٹر مبارک علی کی نشست میں بیٹھنے کی بدولت ڈاکٹر مبشر حسن سے تعارف ہوا اور ان سے ایک یادگار انٹرویو لینے کا موقع ملا، وہ انٹرویو یقیناً ہماری دوست ارحم کے پاس محفوظ ہو گا، مگر مبشر حسن صاحب کی بلی ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد نہ جانے اب کس حال میں ہو۔ یقیناً یہ اتنے بڑے نام نیرنگ کے توسط سے ہی ہماری زندگیوں کا حصہ بن پائے۔

نیرنگ اپنے گھر کی طرح بانہیں پھیلائے ہمیں خوش آمدید کہنے کو ہر وقت تیار رہتا تھا۔ انعم نے یہاں ایک دفعہ پینٹ بدلے جانے پر نیر علی دادا سے یوں جا کر شکایت کی جیسے اس کے گھر میں اس کے بیڈروم کا رنگ اس کی مرضی کے بغیر بدل دیا گیا ہے۔ گوہر کی درازقامتی اور کوتاہ بینی نے ایک دفعہ یہاں کا فانوس گرا دیا تو بھی ہمیں کچھ نہیں کہا گیا، ہم یہاں عابدہ پروین کا کلام سنتے اور کسی خاص چیز پر دل آ جاتا تو اس کو گھنٹوں بھی ریپیٹ پر لگوائے رکھتے۔ سب کچھ گھر جیسا تھا۔

سب کچھ گھر جیسا تھا اسی لیے تو رمشا نیرنگ کے عین چوک میں میز کرسی لگوا سکتی تھیں جہاں ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل کے چارجر آسانی سے ساکٹ تک پہنچ سکیں اور ان کے کام میں خلل نہ پڑے۔

نیرنگ میں باقاعدہ اور بے قاعدہ ہر طرح کی دوستیاں، محبتیں اور عشق پنپتے رہے۔ اور پھر اسی نیرنگ میں ایک سرد سی دوپہر میں نے چائے کے ساتھ دھوکا بھی کھایا تھا جو ظاہر ہے نہ نیرنگ کے مینیو پر تھا نہ اس نے سرو کیا تھا۔ اس دھوکے کی کڑواہٹ شاید ساری زندگی ہی ختم نہ ہوتی اگر سلو بھائی کے اغوا ہو جانے کا واقعہ عین اسی ہفتے میں نہ ہو جاتا اور زندگی کو دوسری سمت نہ لے جاتا۔

دھوکا اگر نیرنگ کی میز پر کھایا تھا تو وفا کا ہاتھ تھامنے بھی میں نیرنگ ہی آیا تھا۔ زندگی یونہی بنتے بگڑنے رہنے کا نام ہے۔ لیکن اس بناؤ اور بگاڑ میں مقام کا کردار بہرحال اہم ہے اور اگر مقام نیرنگ جیسا ہو تو یہ کردار اہم ترین ہے۔

اب بھی وفا یا رمشا کے ساتھ جیل روڈ سے گزرتے کبھی کبھی ہم یہ کہا کرتے ہیں کہ نیرنگ آئے بھی کتنا زمانہ ہو گیا۔ اور پھر رکے بغیر اپنی مصروفیت میں مگن ہو جاتے ہیں۔ دنیا کورونا کی وجہ سے بند ہے۔ لوگ طرح طرح کے علاج اور مشورے دینے کے لیے ہمہ وقت موجود ہیں۔ کورونا نے مجھے ذاتی طور پر خاموش سا کیا ہوا تھا۔ بلکہ شاید ان لوگوں سے بیزاد بھی جو لاک ڈاؤن، قرنطینہ کے دوران سوشل میڈیا کے ذریعے خدائی خدمتگار بنے آپ کو مشورے دے رہے ہیں کہ آپ کو کیا پڑھنا چاہیے، کیا دیکھنا چاہیے، نفسیاتی الجھنوں سے کیسے بچنا چاہیے۔ ان خدائی خدمتگاروں سے اگر کسی نے یہ پوچھ لیا کہ آپ یہ سب تجویز کرنے کے لیے کس حد تک اہل ہیں تو نقصِ امن کا یقیناً خطرہ ہے اس لیے میں نے بیزاری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا، لیکن آج یہ خبر پڑھی کہ نیرنگ بھی کورونا کے سبب بند کر دیا گیا ہے تو اس بیزاری میں اداسی بھی شامل ہو گئی ہے۔
پسِ نوشت: یقیناً بہت سارے دوستوں کا ذکر اس تحریر میں نہیں ہو سکا، لیکن انہیں خبر ہے کہ کیوں ان کے سرِعام ذکر سے پہلوتہی کر گیا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments