چوہدری نثار آئینے سے نہیں ڈرتے


\"Pirzadaسیکھتے رہنے سے ذہن ہرا بھرا رہتا ہے۔ چوہدری نثار سیکھتے رہتے ہیں۔ مثلاً اپنی سابقہ پریس کانفرنس تک وہ لفظ ’ذمہ داری‘ کو ’ذمہ واری‘ کہتے تھے۔ سیاست دان کے لئے کسی ایک لفظ کو روایتی تلفظ سے ہٹا کر بولنا کوئی بری بات نہیں ہوتی بلکہ تلفظ کی یہ مختلف ادائیگی اُس کی شخصیت کی پہچان بن کر اُسے منفرد بناتی ہے یا یوں کہئے کہ حسن کی ایک ادا کہلاتی ہے۔ چوہدری نثار نے حالیہ پریس کانفرنس میں اِس بات کا اعتراف کیا کہ وہ لفظ ذمہ داری کی جگہ ذمہ واری بولتے ہیں جوکہ تلفظ میں ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے یہ اعتراف جھجکے بغیر کیا اور پھر روانی سے صحیح تلفظ ذمہ داری بولنے لگے۔ اس سے ان کی شخصیت کے دو پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی اصلاح کرنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ دوسرا یہ کہ وہ صحیح بات بہت جلد سیکھ کر اُسے اپنی ذات کا حصہ بنا لیتے ہیں۔

اپنی وزارت کے کھلے عام آڈٹ کی پیشکش کوئی نہیں کرتا۔ وجہ یہی ہوتی ہے کہ جتنی بھی ایمانداری برتی گئی ہو تب بھی کوئی نہ کوئی ٹیڑھی لکیر ضرور نکل آتی ہے جس کے بعد اپوزیشن اِسے رائی کا پہاڑ بنا دیتی ہے لیکن چوہدری نثار نے اپنی ماتحت وزارتِ داخلہ کے آڈٹ کی آفر اسمبلی فلور پر کی۔ ان کا بے دھڑک اور بے خوف چیلنج بتاتا تھا کہ انہیں اپوزیشن کے کسی رائی کے پہاڑ سے کوئی خوف نہیں ہے کیونکہ اُن کی وزارت میں رائی جتنا گڑھا بھی نہیں جس سے انہیں ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہو۔ شاید اسی لئے اپوزیشن کے کچھ روایتی سیاست دان چوہدری نثار کو آفیشل آڈٹ کی سخت کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے ’میڈیا کاری‘ کے ذریعے ہی کاری ضربیں لگانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے مخالف سیاست دانوں کو پتہ ہے کہ چوہدری نثار باریک بینی سے کی گئی جانچ پڑتال کے باوجود بھی کسی بے ضابطگی کے مرتکب نہیں پائے جائیں گے جبکہ میڈیا کاری میں سیاسی بیان بازی سے انہیں گھیرا جاسکتا ہے۔ اس کے جواب میں بھی چوہدری نثار نے اپنے نامور مخالف کو یہ کہہ کر چت کردیا کہ سپریم کورٹ کے بے داغ اور محترم سابق جج صاحبان کا کمیشن بنالیا جائے جو اُن پر لگائے گئے تمام الزامات کی تحقیقات کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مخالفین کی بھی ویسے ہی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ چوہدری نثار کی اِس مست قلندر للکار پر بھی نامور مخالف گونگے بہرے ہوگئے۔

’قیدی‘ مظلومیت بھرا لفظ ہے۔ کسی بھی قیدی کا تصور ذہن میں آتے ہی اُس کی رہائی کے لئے لاشعوری طور پر دل سے دعا نکلتی ہے لیکن ’ضمیر کی قید‘ ایسی قید ہے \"nisar-ali-khan-june\"جس میں قید ہونے والا کبھی رہائی نہیں چاہتا۔ اسی لئے ضمیر کا قیدی ایسی معزز اور باوقار فلاسفی ہے جس کے دعوے دار کئی ہوتے ہیں لیکن اُن کے دعوے کی تصدیق معاشرہ یا ہسٹری کرتی ہے۔ چیونٹی جتنے سیاست دان کی حتمی آرزو بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت طاقتور وزیراعظم بنے۔ اس کے لئے وہ اپنی پارٹی کے سربراہوں کو دغا دینے سے بھی کبھی نہیں چوکتا بلکہ کتاب کی چوری چوری نہیں ہوتی جیسے نظریے پر عمل کرتے ہوئے سیاست میں منافقت، دھوکہ دہی اور خودغرضی کو سیاسی عقلمندی سمجھتا ہے۔ ایسا سیاست دان اپنے آپ کو ضمیر کا قیدی کہتے کہتے اپنی زبان خشک کرلیتا ہے مگر لوگوں کا دل ہے کہ مانتا ہی نہیں لیکن چوہدری نثار ایسے سیاست دان ہیں جو اپنی ابتدائی جوانی میں ہی سیاست میں داخل ہونے کے بعد بڑوں بڑوں سے بڑے سیاست دان بن گئے۔ ان کی زندگی میں بھی ایسے مقامات عشق آئے کہ انہیں پاکستانی سیاست کے روایتی اصولوں پر چل کر ٹاپ تک پہنچنے کی دلفریب دعوتیں دی گئیں۔ اس کی ناقابل تردید مثال پرویز مشرف کا مارشل لا ہے جب چوہدری نثار کے وزیراعظم بننے کے سب سولہ سنگھار موجود تھے۔ یعنی ان کا تعلق فوجی پس منظر سے تھا جوکہ مارشل لاء میں بہت ہی مرغوب ہوتا ہے۔ وہ ایسی سیاسی پارٹی پی ایم ایل این کے ناقابل تردید مرکزی لیڈر تھے جو اپنے سربراہ نواز شریف کی وجہ سے عذابِ مشرف میں لاحق تھی۔ چوہدری نثار کے وزیراعظم بن جانے سے ہردو طرح کے فائدے ہی فائدے تھے۔ ویسے بھی ہماری سیاست کا یہی عام چلن ہے لیکن چوہدری نثار نے اپنی پارٹی کے سربراہ پر آئے برے وقت کو ایک ساتھ کاٹنے کا اعلان کیا اور تاحد آخر قائم رہے۔

وہی چوہدری نثار جو مارشل لاءڈکٹیٹر کے سامنے اپنے سربراہ کے لئے ایک حفاظتی دیوار ثابت ہوتے ہیں، وہی چوہدری نثار جب اپنی پارٹی کے اجلاسوں میں بیٹھتے \"chہیں تو اپنی پارٹی کے اُسی سربراہ کی خوشامد کرنے والوں پر سخت تنقید کرکے اُن پر پابندی لگانے کا کہتے ہیں۔ کیا ہسٹری ایسی ہی خصوصیات والے کو ضمیر کا قیدی نہیں کہے گی؟ گاڑی میں شاک ابزاربر گاڑی کی سلامتی کی ضمانت ہوتے ہیں کیونکہ اگر شاک ابزاربر اپنے اندر دھچکے جذب نہ کرے تو جھٹکوں سے گاڑی کا فریم ٹوٹ جائے یا ٹیڑھا ہو جائے۔ ہمارے ہاں سِول ملٹری تعلقات ہمیشہ سے چھوٹے بڑے جھٹکوں کا شکار رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شاک ابزاربر نہ ہوتو سِول حکومت جھٹکوں سے ٹوٹ جاتی ہے یا ٹیڑھی ہو جاتی ہے لیکن چوہدری نثار موجودہ حکومت کے لئے شاک ابزاربر بھی ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ حالیہ سِول ملٹری راہِ سلوک میں ایسی بہت سی منزلیں آئیں جہاں چوہدری نثار نے تصادم کو دور رکھا۔ کہتے ہیں زہر کو زہر مارتا ہے۔

چوہدری نثار کے بارے میں ایک تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ وہ بہت مغرور ہیں۔ یہ تاثر درست بھی ہے اور بالکل غلط بھی۔ درست اس طرح سے کہ ہمارے عوام کا دم بھرنے والے کئی سیاست دان اور کئی اینکر پرسن غرور کا اہرامِ مصر ہیں۔ وہ عام لوگوں اور اپنے کولیگ عام صحافیوں سے ہاتھ بھی نہیں ملاتے۔ وہ اپنے آپ کو ’عقلِ کل‘ سمجھتے ہیں۔ ایسے عقلِ کل کم عقل مغروروں کی چوہدری نثار پرواہ نہیں کرتے۔ اسی لئے وہ مخصوص سیاست دان اور مخصوص اینکر پرسن چوہدری نثار کے لئے مغرور کا لفظ استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف چوہدری نثار عام لوگوں یا عام صحافیوں کے ساتھ بہت عزت سے پیش آتے ہیں اور انہیں بہت اہمیت دیتے ہیں۔ گویا چوہدری نثار غرور کا سر نیچا کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام، میڈیا اور اسمبلیاں سیاست دانوں کے لئے ایک آئینہ ہوتی ہیں جن کے سامنے کھڑے ہونے سے کئی سیاست دان ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی خامیاں صاف نظر آنے لگتی ہیں۔ چوہدری نثار آئینے کے سامنے کھڑے ہونے سے نہیں ڈرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments