محنت کش اور شناختی بحران


دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھیں تو صرف بادشاہوں اور حکمرانوں کے قصے ملیں گے۔ تاریخ کے اوراق سے ہمیشہ وہ لوگ اوجھل رہے ہیں جنہو ں نے اپنے خون پسینے سے اس عالمِ رنگ و بو کو تشکیل دیا۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے دستِ قدرت سے جہانِ شش جہت کو جلا بخشی۔ وہ ہنرور جنہوں نے فلک بوس عمارتوں کو اپنے شانوں پر اٹھا کر ایستادہ کرتے ہیں اور زمین کا سینہ چیر کر معدنیات نکالتے ہیں۔ ان کی خارہ شگافی سے انسان پہاڑوں کی بلند یوں پر مسکن بنانے کے قابل ہوا اور سمندر کی تہوں سے انمول موتی نکالتا ہے۔

وہ لوگ جن کے ہاتھوں پر پڑنے والے ستاروں کی وجہ سے دنیا ایک جگ مگ کرتا ستارہ لگتی ہے۔ سیارہِ زمین پر آج تک جتنی بھی مادی ترقی ہوئی ہے ایک ایسے طبقے کی مرہونِ منت ہے جس کا کوئی وجود نہیں۔ دنیا کے نظام کی تشکیل اور فیصلہ سازی کے ایوانوں تک کبھی ان کو رسائی حاصل نہیں ہوئی۔ تاریخِ انسانی میں آج تک کبھی ان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش نظر آئی۔

قارئین سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کسی سائنسدان یا موجد کی بات کر رہا ہوں۔ جی نہیں! ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اگرچہ اولالذ کر طبقے نے دنیا کا نقشہ بدلنے میں اپنی زندگیاں صرف کیں اور انسان کو اس معراج تک پہنچایا کہ آج وہ ستاروں سے آگے کی دنیا پہ کمند ڈالنے کے قابل ہوا۔ لیکن میرا موضو ع دنیا کا کمزور ترین طبقہ یعنی محنت کش طبقہ ہے۔ وہ طبقہ جس کے بارے نبی آخرالزماں ﷺ نے فرما یا کہ ہاتھ سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے اور حکم دیا کہ مزدور کی ا جرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ جدید دنیا ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن مناتی ہے جب شکاگو کے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے لیے خون کے نذرانے پیش کیے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو بہت سے مسائل سے نجات تو دے ہے مگر مشینوں کی نئی حکومت میں محنت کش طبقہ اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔

اگرچہ مزدور کو حقوق کے نام پر دنیا میں بڑے بڑے انقلابات آئے لیکن نہیں بدلی تو ان کی قسمت نہیں بدلی۔ آندھیاں چلتی ہیں تو کمزور درخت سب سے پہلے گرتے ہیں۔ بعَینِہِ جب بھی کوئی افتاد پڑتی ہے تو سب سے زیادہ متائژ محنت کش ہوتے ہیں۔ کرونا کی عالمی وبا سے یہ طبقہ اور بھی بے یار و مدد گار ہو گیا۔ ماہرینِ معیشت خبردار کر رہے ہیں کہ موجودہ عالمی حالات کے پیشِ نظر مزید ڈیڑھ ارب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے اور ہماری سڑکوں کے کنارے کدال اور بیلچہ لے کر بیٹھنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ امریکہ جیسے امیر ملک میں د و کروڑ سے زائد لوگوں نے مالی امداد کے لیے کلیم داخل کرائے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے بیروزگار ہو گئے ہیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں جب ان کا کوئی نمائندہ ہی شامل نہ ہو تو ان کے مفادات کا تحفظ کون کر ے گا۔ حالیہ دور میں محنت کشوں کو مادی بحران کے ساتھ شناختی بحران کا بھی سامنا ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ دنیا میں جتنی بھی اضافی دولت (surplus wealth) پیدا ہوتی ہے یہ دراصل مزدوروں کا حصہ ہے جن کی وجہ سے سرمایہ دار منافع کما نے کے قابل ہو تا ہے اور یہی سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا دوغلا پن ہے۔

جب ا حساس پروگرام کے تحت رقم تقسیم ہو رہی ہے تو ایک درد انگیز شاخسانہ سامنے آیا۔ رقم تقسیم کرنے والے ریٹیلرز سے شکایات آ رہی ہیں مسلسل محنتِ شاقہ کی وجہ سے محنت کشوں کے ہاتھ اتنے کھردرے ہو گئے ہیں کہ بائیو میٹرک مشین بعض مزدوروں کی شناخت کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اگرچہ اس مشین کو بنانے کے لیے خام مال کسی مزدور نے دنیا کے کسی کونے میں اپنے انھی کٹے پھٹے ہاتھوں سے تیار کیا ہو گا۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ مستقبل میں مسائل کا ایک بہت بڑا عفریت اُن کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ مارکس کا دیا ہوا نعرہ کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ، تمھارے پاس کھونے کے لیے زنجیروں کے سوا کچھ بھی نہیں اور جیتنے کے لیے پوری دنیا پڑی ہے، آج بھی پوری قوت کے ساتھ گونج رہا ہے۔

بندۂ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیغامِ حیات ہے

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہء دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیر ی برات

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
(اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments