روٹی بیمہ پالیسی


سلام چاچا سلیمے۔

یہ میرا بیلی رفیق ہے۔ شہر میں یہ اور میں اکٹھے کالج پڑھتے تھے پھر اس کی نوکری ہوگئی اور میں گاؤں کا ہوکے رہ گیا۔ آج میری طرف گھر آیا تھا دعوت پے، سوچا اسے کھیت دکھا لاؤں۔

والسلام پتر۔ سارے کھیت ہی تیرے اپنے ہیں جہاں مرضی گھوم پھر۔ سلیمے نے دونوں لڑکوں کو گرمجوشی سے سلام کا جواب دیا۔

چچا سلیمے سے ملاقات کے بعد چہرے پر مسکراہٹ سجائے فیصل اور رفیق کھلیانوں میں آگے بڑھ گئے اور سلیم دوبارہ سے تھریشر کی صفائی میں جڑ گیا۔

تھریشر مشین ڈیرے کے بالکل اس پار کھڑی تھی جہاں سے کل گندم کی کٹائی کا آغاز ہونا تھا۔

گندم کی ڈالیاں سونے سے بھری لگ رہی تھی۔ سال بھر کی محنت آنکھوں کے سامنے تھی اور سلیمے کو ان ڈالیوں میں اپنے خواب پورے ہوتے نظر آرہے تھے۔

چوہدری ظفر کا ختم ہوتا قرضہ، مکان کا پکا صحن، پانی والی موٹر اور سب سے اہم سنبل کی آنکھوں کی روشنی جو آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جا رہی تھی۔ ڈاکٹر نے علاج کے لیے 25000 ہزار کا خرچہ بتایا تھا اور سلیمے کو یقین تھا۔ 7 ایکڑ کی گندم سے اتنے پیسے تو نکل ہی آئیں گے۔

ٹالی نیچے بیٹھے اسے یوں لگا جیسے یہ سارے خواب صرف آج رات تک کے ہیں اور کل تھریشر کے نگاروں سے حقیقت بن جائیں گے۔

اس نے ایک مطمئن آہ بھرتے ہوئے پانی کا جگ پاس کیا اور گلاس منہ کو لگایا۔

چچا لسی تھوڑی ہمارے لیے بھی بچا لی۔ فیصل کی آواز دور سے سنائی دی جو اپنے شہری دوست رفیق کے ساتھ سلیمے کی ہی طرف واپس آرہا تھا۔

’پتر لسی نہیں، یہ تو پانی ہے۔‘
لسی منگوا لیتے ہیں۔ سلیم نے لڑکوں کو جواب دیا۔

اوہ ناں، ناں چچا کوئی تکلف کی ضرورت نہیں ہم تو بس ایویں مذاق کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر یہاں ٹالی کی چھاوں میں بیٹھے گے اور پھر گھر کھانا بن رہا ہے۔

تو پتر کھانا بھی یہیں سے کھا لے۔ یہ بھی تو تیرا اپنا گھر ہے۔
ناں چچا کوئی ناں۔ اب گھر ہی جائیں گے۔
اچھا! سلیم لڑکوں کے اصرار پر ذرا خاموش ہوگیا۔
کچھ دیر توقف کے بعد فیصل کے دوست سے گویا ہوا۔
پتر تو ہی کچھ کھا پی لے۔ ۔ آخر مہمان ہے!
نا چچا، فیصل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ گھر کھانا بن چکا ہوگا تو آپ کے ہاں پھر کبھی صحیح۔
چچا تو گندم کی سنا، اس دفعہ تگڑی فصل ہو تو مجھے ضرور یاد رکھی۔
رفیق کی بات سلیمے کے پلے نہیں پڑی لیکن خیر پھر فیصل نے چاچا کی یہ مشکل دور کردی۔

فیصل نے بتایا رفیق ایک بیمہ کمپنی میں کام کرتا ہے۔ جہاں زندگیوں سے لے کر گاڑی، گھر، بنگلہ، موٹر سائیکل اور حتی کہ ٹریکٹر تک کا بیمہ کیا جاتا ہے۔

جو بھی چیز چاہو، بیمہ کروا لو اور خرابی یا نقصان کی صورت میں باقاعدہ امداری رقم ملتی ہے۔
سلیمے کے لیے چیزوں کی بیمہ پالیسی والا شوشہ نیا، نیا تھا۔ اسے لگا جیسے یہ کوئی چنگی گل ہے۔

بھئی زندگی تو جب جانی ہے تب جانی ہے پر یہ جو چیزیں آئے روز خراب ہو جاتی ہیں اگر ان کو ٹھیک کروانے کا کوئی نہ کوئی بندوبست ہوجاتا ہے تو اور کیا چائیے۔ مزدور، کسان جیسے بندے کی زندگی کی آدھی دیہاڑیاں تو پیٹ کے دوزخ اور اس سے جڑی دوسری چیزوں کو پالنے میں گزر جاتی ہے۔

کبھی مہنگائی تو کبھی بیماری، کبھی حادثہ تو کبھی آفت۔ ہائے کبھی، کبھی زندہ رہنے کا دکھ زیادہ ہوتا ہے۔ سلیم من ہی من میں سوچ رہا تھا۔
چچا کن سوچوں میں گم ہوگئے۔ اللہ تجھے حیاتی دے میں تو بس ویسے کہہ رہا تھا کہ اگر تیرا پالیسی کا موڈ بنے تو بتائی۔
”مجھے فیصل بتا رہا تھا کہ چھوٹی کی آنکھوں میں موتیا ہے۔ دیکھ اگر اس کی آج پالیسی کروائی ہوتی تو اس کا علاج کمپنی نے کروانا تھا۔

چنگا چاچا چلتے ہیں۔ موسم کے حالات بھی کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے اس سال پہلی دفعہ اپریل میں تین بارشیں ہوئیں ہیں۔
نا پتر۔ بارش تو نہ ہی آئے۔ ہماری فصلیں تیار کھڑی ہیں۔ کل کٹائی کا موڈ ہے اگر آج مینہ برسا تو ہماری ساری محنت کو بھی بہا لے جائے۔

اللہ خیر کرے گا چاچا۔ اب ہم چلتے ہیں۔
دونوں دوست گھر کو لوٹنے کے لیے اٹھے تو سلیمے نے بھی گھر جانے کا سوچا۔

سامنے سنہری ڈالیاں ہواؤں میں جھومر ڈال رہی تھی اور اوپر گہرے کالے بادل انہیں ناچتا دیکھ کر غرا رہے تھے۔
سلیما درود شریف پڑھتا ہوا گھر آگیا۔

رات کا پہلا پہر ابھی اپنے جوبن تک بھی نہ پہنچا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ ابر یوں برسا کہ منٹوں میں ہر طرف جل تھل کر گیا۔
سلیم تیز بارش کو چیرتے ہوئے کھیتوں کی جانب بھاگنے لگا تو اس کی گھر والی نے اس روکنا چاہا لیکن اس نے سنی ان سنی کر دی۔

بادل خوب برس رہے تھے۔ بارش کے آثار بتا رہے تھے کہ جیسے چھوٹی کی آنکھیں اور کچا مکان سب پانی میں بہہ جائیں گے۔
سلیمے کو سینے میں گھٹن سی محسوس ہوئی۔ اسے پھپھڑوں سے سانس کشید کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

ٹھنڈی بارش میں گرم آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے لیکن رات کی تاریکی نہ ان آنسوؤں کو دیکھ سکی اور نہ ہی موسم کی شدت انہیں محسوس کر سکی۔

سلیم کچڑ میں لت پت نجانے کن سوچوں میں گم گھر واپس آگیا۔
اگلی صبح گاؤں میں عجیب طرح کی خاموشی تھی۔ گہرا سناٹا بالکل ایسے، جیسے کسی فوتگی والے گھر میں میت اٹھ جانے کے بعد ہوتا ہے۔

فیصل کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ اسنے دروازہ کھولا تو چاچا سلیم بے جان سپاٹ چہرہ لیے دروازے پر تھا۔
فیصل نے چاچا کو اندر آنے کو کہا تو سیلمے نے بڑی مشکل سے اٹھائے ہوئے قدم گھر کے صحن میں بیٹھک کے عین سامنے لاکر پھینک دیے۔

بیٹھک کا دروازہ کھلا تھا اور چارپائی پر فیصل کا دوست رفیق بیٹھا تھا۔
چاچا سلیم رفیق کے سامنے کرسی پر آکے بیٹھ گیا۔

فیصل چچا سلیمے کی حالت دیکھ کر پریشان تھا۔ انہیں رات کی بارش سے تباہ ہوئی فصل کا گہرا صدمہ پہنچا تھا۔
سلیمے نے رفیق سے سوال کیا۔
کیا اجناس کا بیمہ بھی ہو جاتا ہے پتر؟
”مجھے گھر کے بھرولے میں پڑی روٹیوں کا بیمہ کروانا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments