پیوٹن کا بدلہ اور 40 سال کا صبر!


جی ہاں پو رے 40 سا ل بعد آج امریکہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں 1980 ء میں روس تھا۔ یہ ہو تی ہے قوم اور یہ ہوتا ہے بدلہ۔

یاد رکھیں 1980 ء میں امریکہ کی ٹکر کا صرف ایک ملک تھا روس۔ بے شمار کتب اس بارے میں لکھیں گئیں کے کیسے امریکہ نے سوویت یونین کو ایک فضول اور لا حاصل جنگ میں گھیرا اور پھر مجاہدین کی مدد سے اس کا دھڑن تختہ کر دیا۔ سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور چالیس سال اپنے زخم چاٹتا رہا۔

یاد رہے 1980 ء میں کے جی بی (روس کی خفیہ ایجنسی ) دنیا کی ایک پاور فل ایجنسی تھی اور اس کے ایک ایجنٹ کا نام ولادیمیر پیوٹن تھا روس کو ٹوٹتے اور ایک طاقت سے صفر ہوتے پیوٹن نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔

یہ ایجنٹ یکم جنوری 2000 ء کو روس کا صدر بنا اور پھر اس قوم نے ترقی کا اپنا سفر دوبارہ شروع کیا آہستہ آہستہ پیوٹن نے تمام تر ظلم و جبر کے بعد اپنے ملک پر اتنا کنٹرول حاصل کر لیا کہ اب وہاں گزشتہ 20 سال سے اس کی ہی حکومت ہے اور اس کے خلاف ہر آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔ پیوٹن کی پالسیاں ہی اب روس کی پالیسیاں ہیں۔

یہاں ایک دلچسپ بات سنتے چلیں کہ جس وقت روس میں پیوٹن صدر بنا عین اسی وقت یعنی سن 2000 ء میں امریکہ میں بھی ایک شخص امریکی صدر بننے کی کوشش کر رہا تھا لیکن کامیاب نا ہو سکا۔ اس شخص نے 2004 ء، 2008 ء اور 2012 ء کے امریکی صدرارتی انتخابات میں بھی شامل ہو نے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ لیکن 2016 ء میں اس شخص کی زندگی میں ایک حیران کن لمحہ تب آیا جب وہ نا صرف صدارتی امیدوار بنا بلکہ الیکشن جیت بھی گیا۔ جی اس شخص کانام ہے ڈونلڈ ٹرمپ۔

امریکہ میں آج تک اس بات کی انکوائری چل رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ روس کی مدد سے امریکہ کا صدر بنا ہے جی ہاں مبینہ طور پر اسی روس اور پیوٹن کی مدد سے جس کو امریکہ نے 1980 ء میں تباہ کر دیا تھا۔

اب آئیے اس طرف کے پیوٹن کی پالسیاں ہی روس کی پالسیاں ہیں۔ سعودیہ اور روس کروڈ تیل کے دو سب سے بڑے پروڈیوسر ہیں تھوڑا عرصہ پہلے سا ری دنیا نے ان دو نوں ممالک کی جنگ کو رحمتِ خداوندی سمجھا اورتیل کی کم ہو تیں ہو ئی قمیتوں سے دنیا کے سب انسانوں نے مستفید ہونا شروع کیا (ماسوائے پاکستان کے کیونکہ اس وقت بد قسمتی سے اسد عمر جیسے شاندار لوگ اپوزیشن میں نہیں تھے ) ۔

سا ری دنیا ان دو ممالک کی آئل وار پر بغلیں بجا تی رہی اور تیل پیتی رہی۔ امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر سا یہ اس سا ری لڑائی سے لا تعلق ہو کر بیٹھا رہا اپنے شیل آئل کا دھنڈورا پیتا اور کوئی ہاتھ پاؤں نا ما رے۔ 9 مارچ 2020 ء جی آج سے صرف ڈیڈھ ما ہ پہلے Tertzakian peter نے فنا نشنل پوسٹ میں لکھا کہ ”یہ کروڈ آئل کی جنگ تیل کی قیمتوں اور فنا نشل مارکیٹس میں اپنا حصہ وصولی سے بڑ ہ کر کچھ بہت آگے کی با ت ہے۔“

Tertzakian, Peter ( 9 March 2020 ) . ”This crude war is about a lot more than oil prices and market share“ . Financial Post. Postmedia.

ایک لمحہ رکئیے!
دسمبر 2019 ء کے اواخر میں چین کے اندر کرونا نا می بیماری نے سر اُٹھا یا اور لوگوں کے اموات نے جہاں پوری دنیا خوف زدہ ہوئی وہیں امریکہ نے اس معاملے کو انتہا ئی غیر سنجیدگی سے دیکھا۔

20 جنوری 2020 ء میں امریکہ میں کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا۔ امریکہ کا شروع میں کرونا کے متعلق رسپانس انتہائی سست رہا۔ جی وہی ملک جس کے بارے میں ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ وہاں اگر کتا بھی مر جا ئے تو گورنمنٹ کی دوڑیں لگ جاتیں ہیں۔ وہاں کرونا پر اتنا سست اور بُرا رویہ اختیار کیا گیا کہ پہلے تو ڈونلڈ ٹرمپ یہ ما ننے کو ہی نہیں دے رہا تھا کہ امریکہ میں کرونا ہو سکتا ہے اور شروع میں حکومتی CDC ٹیسٹنگ کٹس ہی خراب نکل آئیں اور پرائیویٹ لیبا رٹریز کو بھی ٹیسٹ کر نے سے منع کر دیا گیا لیکن جب 1 مارچ کو نیویارک میں پہلا کیس سا منے آیا تو خطرے کی گھنٹیاں بجیں۔ یاد رہے نیو یارک میں ٹرمپ کے مخالف گورنر ہے جس نے ٹرمپ کی کوئی بھی بات سننے سے انکار کیا اور اپنی ریاست کو لاک داؤن کردیا اور ما رچ کے وسط میں امریکہ کو لاک ڈاؤن ہونا پڑا۔ اس سارے دورانیے میں ڈونلڈ ٹرمپ کبھی بھی لاک ڈاؤن کا حامی نہیں رہا۔

ریاستیں (نیو یارک وغیرہ ) چلا رہی ہیں کہ وفاقی حکومت یعنی ڈونلڈ ٹرمپ ان کی کوئی مدد نہیں کر رہے آج کے دن تک امریکہ میں 42500 لوگ جان سے جا چکے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اس بار بھی میڈیا کو اور لوگوں کو اپنی حرکتوں سے الجھا نے کی کوشش کر رہا ہے۔

جب امریکی انتظامیہ کرونا سے لڑ رہی تھی، روس اور سعودیہ کا ”تیل تنازعہ“ عروج پر پہنچ چکا تھا۔ امریکی اکنامسٹ چیخ رہے تھے کہ اس سا ری لڑائی میں اصل نشانہ امریکہ ہے لیکن ان کی بات سننے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ اور پھر آتا ہے وسط اپر یل 2020 ء امریکہ میں تیل کا ریٹ گرتے گرتے صفر ڈالر ہو جاتا۔

پو ری معیشت ہی بیٹھ جا تی ہے اور دنیا کے بڑ ے بڑے فنانشنل ایڈوائز یک دم چیخ اُٹھتے ہیں ”امریکہ ختم۔“

اب اس ما حول میں امریکہ کہ دشمن جی روس، چائنا اور مسلمان سکھ کا سانس لے رہے ہیں لیکن میں ایک نئے انسا نی المیے کو دیکھ رہا ہوں۔ جہاں مذہب اور رنگ کو لے کر امریکہ اور پوری دنیا میں جتنا کچھ بھی خراب ہو گا اس کا بیان ممکن نہیں۔

اب ذرا تصویر کے سارے ٹکڑ ے جو ڑتے ہیں۔ 1980 ء میں روس کو امریکہ نے مسلمانوں کی مدد سے توڑا، 1990 ء میں کے جی بی کا ایک سا بقہ ایجنٹ پیوٹن سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے اور 2000 ء میں روس کا صدر بن جا تا ہے۔ 2000 ء میں ہی امریکی سیاست میں ایک متشدد شخص حصہ لینے کی کوشش کرتا ہے اور 4 بار کی ناکام کوششوں کے بعد 5 ویں کوشش میں پیوٹن کی مدد سے 2016 ء میں امریکہ کا صدر بنتا ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں روس خاموش رہتا ہے کسی ملک سے پنگا نہیں کرتا اور مضبوط ہوتا ہے اور گزشتہ 4 سالوں میں ڈونلڈ ٹرمپ ہر بڑ ی طاقت سے پنگا کرتا ہے ( چین سے، یورپین یونین سے ) ، گزشتہ سال روس اور اوپیک کا تیل کی پیدوار کو لے کر تنا زعہ شروع ہوتا ہے، جنوری 2020 میں کرونا کا شور پوری دنیا میں اُٹھتا ہے اور صرف 4 ماہ میں اور ٹرمپ کے صدر بننے کے صرف 4 سال بعد روس اور مسلمانوں نے نعرہ بلند کیا ”امریکہ ختم“ ۔

سب کچھ امریکی عوام کی آنکھوں کے سامنے ہوا اور ہو رہا ہے اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ اسے کہتے ہیں بدلہ اور عرصہ لگا 40 سال جی چالیس سال۔

مضمون کا واحد مقصد یہ بتا نا ہے کہ قومیں ایک مربوط پلاننگ اورصبرسے زند گی گزارتیں ہیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتی ہیں۔ رات و رات کچھ تبدیل نہیں ہوتا۔

دوسرا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا پاکستان بھی پہلے سے مضبوط ہوا ہے یا انارکی کا شکار ہوا ہے۔ اور وہ کون سا گروہ ہے جس کی آمد کے بعد ہما رے ملک کی معیشت کا بھی جنازہ نکل چکا ہے اوروہ کون ہے جو یہاں بھی لاک ڈاؤن کے خلاف ہے؟
کہیں ہم بھی کسی دشمن کی پلاننگ اور صبر کا شکار تو نہیں ہو رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments