خدا بچوں کا حامی و ناصر ہو


پتہ نہیں کیوں دن بدن انسان میں سے انسانیت غائب ہوتی جا رہی ہے۔ آئے دن کہیں نا کہیں سے بچوں سے جنسی زیادتی، جسمانی تشدد یا قتل کی خبریں آتی رہتی ہیں اور ہم یہ سب سننے اور دیکھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ مہذب ممالک میں ایسے واقعات پیش آنے پر مزاحمت کی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں پرزور طریقے سے مذمت بھی نہیں کی جاتی ہے۔ ویسے نا صرف پاکستان یا اسلام میں بلکہ دنیا کے ہر ملک و مذہب میں بچے کو فرشتہ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مادہ پرست لوگ بھی بچوں کو فرشتہ کہا کرتے ہیں لیکن آج کے انسان کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد پیدا ہو گیا ہے۔ کہتے کچھ ہیں اور کچھ ہیں۔

ہم پوری دنیا میں سے اپنے ہی خطے کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ کہلاتے ہیں لیکن حقیقت کجھ مختلف ہوتی ہے۔ وحشی اور درندہ صفت انسان اپنے ہیں۔ بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنانے پر اتر آئے ہیں۔ درسگاہوں میں استادوں کے شاگرد محفوظ نہیں ہیں۔ وہ چاہے بچیاں ہوں یا بچے اگر موقع ملے تو لوگ بھاگنے کا موقع بھی نہیں دیتے۔ بچے اور خواتین کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہ چاہے مغربی ممالک ہوں یا مشرقی ممالک پاکستان اور ہندوستان میں تو بالکل بھی نہیں یہاں تک کہ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں بھی غیر محفوظ ہیں اور عورت تو ہمیشہ سے دوسروں کے رحم و کرم پر جیتی آ رہی ہے۔

پاکستان میں کچھ دن پہلے ایک ایسا انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جس کا جتنا افسوس کیا جائے اتنا کم ہے۔ کچھ دن پہلے میرے شہر کے دیہاتی علاقے سے بھینسیں چرانے والے ایک 14 سالا لڑکے کی گولی لگی ہوئی نعش ملی۔ اس نعش کو قانونی کارروائی کے لئے شہر کی سول ہسپتال لایا گیا تو میں بھی اپنی صحافت ڈیوٹی دینے کے لیے ہسپتال چلا گیا۔ وہاں میری ملاقات اپنے ایک دوست مولوی نعیم اللہ سے ہوئی۔

اپنا میڈیا ورک کرنے کے بعد اپنے دوست کے ساتھ ایک درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا اور بڑے افسوس کے ساتھ مولوی نعیم اللہ کو کہا کہ اس لڑکے کی عمر ہی کیا تھی۔ اس نے اس دنیا میں دیکھا ہی کیا ہوگا پتہ نہیں کس ظالم نے اس سے اس کی زندگی چھین لی اگر ڈاکوؤں نے قتل کیا تو بھینس کی قیمت کی کیا ہوتی ہے جس کے لیے ایک انسان کو قتل کر دیا اگر کسی خاندانی یا قبیلہ ور دشمنی کا شکار ہوا ہے تو اس دشمنی میں اس بچے کا کیا قصور تھا۔ پتہ نہیں کیوں انسان اپنی انارکی اور بھوک و ہوس کے لیے انسانیت کی حدیں پار کر لیتا ہے۔

اتنے میں مولوی نعیم اللہ بھی دکھ آلودہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا سورج طلوع ہوتا جس دن کہیں نا کہیں کسی بچے سے ظلم ہوتا ہو اور اپنی موبائل فون کھول کر اس نے ایک خبر پڑھ کر سنائی کہ رحیم یار خان کے علاقہ رفیق آباد بائی پاس روڈ تھانہ صدر کی حدود میں لیاقت شیخ نامی بے رحم باپ نے سسرالیوں کو پھنسانے کے لئے اپنے ہی دو سالا بیٹے کو قتل کر کے نعش پھندے سے لٹکا دی اور پولیس کو بلا کر کہا کہ اس کے سسرالیوں نے قتل کیا ہے۔ انکشاف ہوا کہ گزشتہ رات ملزم نے اپنی بیوی پر تشدد کیا تو سسر آکر اپنی بیٹی کو گھر لے گیا جس پر ملزم نے اپنے سسر سالوں اور بیوی کو پھنسانے کے لئے اپنے ہی لختِ جگر کو انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا۔

یہ خبر سن کر مجھے بہت بڑا صدمہ پہنچا اور اس سماج سے نفرت کرنے لگا جہاں قدم قدم پر درندگیوں کی داستانیں سننے کو ملتی ہوں جہاں انٹرٹینمنٹ کے لیے ٹی وی کھولیں تو پہلی ہی نظر نعشوں پر پڑتی ہو جہاں انٹرنیٹ کھولیں تو قتل و غارت گری اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کی پوسٹ پر پوسٹ ملتی ہوں۔ دکھ و درد، رنج و غم، ظلم و جبر، تشدد اور ستم یا نا انصافیاں کسی بھی قوم یا فرد کی تقدیر میں لکھی ہوں یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن جس طرح ہماری قوم یہ ملال برداشت کرتے ہے۔ یہ دانشمندی نہیں بلکے جہالت ہے کیونکہ خدا بھی تب تک کسی قوم کی تقدیر نہیں بدلتا جب تک و خود اپنی تقدیر بدلنا نہ چاہے اور اپنے حالات بدلنے کے لئے محنت و جدوجہد نہ کرے اور ہماری قوم تو سب کے سامنے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments