تین جانور، تین کہانیاں


ایک دم اور چار ٹانگوں کے علاوہ ان تینوں جانوروں میں جو قدر مشترک ہے وہ ان کی وفاداری اور محبت کے انمول سبق ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب یہ چیزیں انسانوں میں۔ چلیں رہنے دیں، کہانیاں پڑھیں۔

شہزادہ سلیم یعنی جہانگیر بادشاہ عرف شیخو سے تو ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ ایک کہانی کے مطابق موصوف کی نوجوانی کی محبت کی بھینٹ میں بے چاری انارکلی زندہ دیوار میں چنوا دی گئی۔ تاہم اسی بادشاہ کے نام پر آباد کیے ہوئے شہر شیخو پورہ کے قریب واقع ہرن مینار شہزادہ سلیم کی ایک اور محبت کی یادگار کے طور پر موجود ہے۔ تخت لاہور سے قریب تیس میل کے فاصلے پر گھنا جنگل مغل بادشاہوں کے لئے شکارگاہ کا کام دیتا تھا۔

جہانگیر بادشاہ کی رعایا میں اس کا مانسی راج نامی ہرن بھی تھا جو اس شکار گاہ میں جنگلی جانوروں کو پھسلا کر پانی کے تالاب تک لانے کا کام کرتا اور یوں بادشاہ کے لئے شکار کرنا آسان ہو جاتا۔ مانسی راج کی مہارت نے اسے جہانگیر کا پسندیدہ ہرن بنا دیا تھا۔ جب ہرن کا انتقال ہوا تو بادشاہ سلامت نے فارس کے بادشاہوں کی طرز پر اس کے اعزاز میں تالاب کے قریب ہی ایک سو فٹ اونچا مینار تعمیر کروا دیا۔ یوں چار سو سالوں سے یہ مینار جہانگیر کے وفادار ہرن کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔ بعد میں شاجہان نے مینار کے قریب ایک ہشت پہلو دو منزلہ عمارت بنوا دی۔

کیرتھر کا ڈھائی سو کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کی دوسری بڑی چوٹی دو ہزار میٹر بلند ہے جسے سندھی میں کتے جی قبر اور بروہی زبان میں کوچاک نا قبر کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑ سندھ کی بلند چوٹی گورکھ ہل سے قریب تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کتے جی قبر پہاڑ کی حد بندی کے ضمن میں سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں میں چپقلش چلتی رہتی ہے۔ بروہی لوک کہانی کے مطابق ایک چرواہے کو کچھ رقم کی ضرورت پڑی تو اس نے اپنا وفادار کتا ایک بنیے کے یہاں گروی رکھوا کر اپنی ضرورت پوری کی۔ ایک رات بنیے کے گھر چور آئے اور سارا سامان لے گئے۔ اگلی صبح کتے نے دور جنگل میں اس جگہ کی نشاندہی کر دی جہاں لوٹ کا سامان رکھا گیا تھا۔

بنیا کتے کی وفاداری سے بہت متاثر ہوا اور اس نے چرواہے کے ذمے تمام رقم معاف کر دی۔ اس نے ایک چٹھی میں کتے کی وفاداری کے متعلق لکھ کر اس کے گلے میں باندھ کر روانہ کر دیا۔ اسی اثنا میں چرواہے کے پاس نئے کی رقم لوٹانے کا بندوبست ہو گیا تو وہ اپنا کتا واپس لینے نکل پڑا۔ کیرتھر کی پہاڑیوں پر اس نے دور سے اپنے کتے کو دیکھا تو یہ سمجھا کہ وہ اپنے نئے مالک کو چھوڑ کر بھاگ آیا ہے۔ یہ سمجھ کر اس نے کتے کو خوب برا بھلا کہا۔ کتا بیچارہ اس لعن طعن کو برداشت نہ کر سکا اور چل بسا۔ چرواہے نے جب کتے کے گلے میں بندھی ہوئی چٹھی پڑھی تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔ اپنے وفادار اور ذہین کتے کو اس نے قریب کی سب سے اونچی چوٹی پر دفن کر دیا اور یوں وہ پہاڑی بروہی چرواہے کے وفادار کتے کی مناسبت سے آج تک ”کتے کی قبر“ کہلاتی ہے۔

تیسری کہانی ایک وفادار گدھے کی ہے۔ کھوتا قبر نامی قصبہ موجودہ حولیاں کے پہاڑوں میں ایبٹ آباد سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔ انیسویں صدی میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے جہادی دستے نے سکھوں کے خلاف جہاد کے لئے بالا کوٹ جاتے ہوئے ایبٹ آباد کے قریب خیمے نصب کیے۔ آس پاس کی پہاڑیوں پر سکھوں کے قبضے کی وجہ سے مجاہدین کو مشکلات پیش آنے لگیں۔ ایسے میں انہوں نے ایک گدھے کو استعمال کیا۔

چنانچہ یہ گدھا رات کی تاریکی میں مجاہدین کا اہم ساز و سامان لے کر ادھر سے ادھر ہوتا رہتا۔ گدھے کی راستہ نہ بھولنے کی خوبی نے اس مشکل وقت میں مجاہدین کا خوب ساتھ دیا۔ بعد میں اس گدھے کی قبر کا نشان تو مٹ گیا لیکن قصبے کا نام اس کے نام پر رہ گیا۔ کچھ عرصہ پہلے یہ نام بھی اس وفادار گدھے سے چھین کر مسلم آباد رکھ دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments