کیا بقا کی جنگ پھر سر پر ہے؟


صنعتی انقلاب جب آیا تو انسانی تہذیب و تمدن، ثقافت بالکل تبدیل ہو گئی۔ پہلے لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے، لیکن اس انقلاب کی وجہ سے بڑے بڑے شہر بن گئے، لوگوں کا بہاؤ شہر کی طرف ہو گیا، ذرائع نقل و حمل وجود میں آئے آسمان کو چھوتی عمارتیں اگ آئیں، جن میں لوگوں کو مرغیوں کے دڑبے جیسے گھروں میں گھسیڑ دیا گیا، خاندان جو کہ زرعی دور میں بڑے اور باہم مربوط ہوتے تھے اس دور میں چھوٹے ہوتے چلے گئے اور سمٹ سمٹا کر میاں بیوی اور بچوں تک محدود ہو گئے۔

عظیم الشان فیکٹریاں اور ملیں وجود میں آگئیں، جھینگر کی آوازوں کی جگہ فیکٹری کے ہوٹروں نے لے لی، پہلے وقت کا انداز فطرت سے لگایا جاتا تھا، پھر فیکٹری کے وہسلوں سے لگایا جانے لگا، جگنوؤں کی جگہ مصنوعی روشنیوں نے لے لی، آسمان سے ستارے غائب ہوگے اور چاند نے نکلنا اور چاندنی بکھیرنا چھوڑ دیا، فضا میں پھولوں کی خوشبو کی جگہ فیکٹری کے دھویں اور کیمیکل نے لے لی، نیلا آسمان صرف کہانیوں میں رہ گیا، لوگوں کی زندگی مشین بن گئی اور انسان نے گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ چلنا شروع کر دیا، انسان سے رشتے ناتے چھین لئے گئے، حتی کہ بچے بھی دور کر دیے گئے ان کو ”تعلیم“ کی فیکٹریوں میں کھپا دیا گیا، بچوں سے ان کی ”زندگی“ چھین کر ان کو فیکٹریوں کا خام مال بنا دیا گیا۔

صنعتی انقلاب کی وجہ سے سامراج وجود میں آیا، سامراجی اقدار پھلی پھولیں، صنعتی نظم کو قائم رکھنے کے کئیے ارزاں وسائل کی ضرورت تھی، اور ان ارزاں وسائل کو حاصل کرنے کے لئے غیر صنعتی اقوام کا استحصال کیا گیا، ڈارون کے نظریے کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر صنعتی لوگوں کی پسماندگی، ان کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کو عقلی اور اخلاقی جواز مہیا کیا گیا۔ ڈارون نے تسمانیہ کے Aborigines کے قتل عام کا ذکر کیا اور اسی کے زیر اثر اس نے پیش گوئی بھی کر ڈالی کہ مستقبل کے کسی دور میں ”مہذب انسان“ دنیا میں سے غیر مہذب انسانوں کا صفایا کر دیں گے، ڈارون کے نظریے کے مطابق صنعتی دور کے معماروں کو اس بارے میں کوئی شبہات نہیں کہ زندہ رہنے کا حق صرف fittest کو ہے۔

اب دنیا تیسرے دور میں داخل ہوگئی ہے، جس میں اب تیل کی ضرورت ختم ہو رہی ہے توانائی کے متبادل ذرائع دریافت کئیے جارہے ہیں۔ فولاد کے کارخانے، ٹیکسٹائل کی ملیں، گاڑیوں کی فیکٹریاں اور وہ تمام صنعتیں جو کہ صنعتی دور میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھیں غریب ممالک میں منتقل کر دی گئیں تاکہ محنت کی کم قدر کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے، پہلے غیر صنعتی اقوام کا ارزاں خام مال حاصل کرنے کی وجہ سے استحصال کیا گیا اور اب محنت کی کم قدر دے کر ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔

اب ٹیکنالوجی سے غریب اور ”غیر مہذب“ اقوام اور ممالک کو لوٹا جائے گا۔ فائیو جی، خلائی ٹیکنالوجی، کلوننگ، فیس بک، گوگل، ایپل، ان کو استعمال کرتے ہوئے پھر ڈارون کے نظریے کو بنیاد بناتے ہوئے کمزور اور لاغر کو تلف کر دیا جائے گا کیونکہ جینے کا حق تو صرف فٹسٹ کو ہے۔

پہلے جو خاندان صنعتی دور کی وجہ سے سکڑا تھا اور سکڑتے سکڑتے میاں بیوی اور بچوں تک محدود ہوگیا تھا، اب اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے شاید بالکل ہی ختم ہوجائے، صورتحال یہ نہ ہو جائے کہ سارا جہاں ہمارا پر کوئی نہیں ہمارا۔

انسانی جذبات و احساسات ختم ہو جائیں، انسانوں کی جگہ روبوٹس لے لیں، کلوننگ کے ذریعے مختلف اقسام کے انسان پیدا کیے جائیں، فوجی انسان، سائنسی انسان، مزدور انسان، فلاسفر، استاد، حکمران، بیورو کریٹس، غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے لئے الگ انسان، سمندروں پر تیرتے ہوئے شہر آباد کئیے جائیں، خلا میں نئی بستیاں بسائی جائیں۔

”غیر مہذب“، کمزور اور غیر ترقی یافتہ قومیں شاید مٹ جائیں، کیونکہ بقول ڈارون ارتقاء میں تو وہی زندہ رہتا ہے جو فٹسٹ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments