شاید وہ خواب تھا جو بکھر گیا



دل بوجھل تھا لیکن اجنبی آواز کے طلسم نے تو سوچوں کو اور ہی الجھا دیا۔ پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو کچھ نظر نہ آیا۔ سوچا کہ دنیا کی جیل میں قید با مشقت کاٹتے کاٹتے شاید وہم سا ہو گیا ہے اس لیے آوازیں آرہی ہیں۔ جیل کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے ہر چڑھتے سورج کی پھوٹتی کرنیں نجانے کیوں امید دلاتی ہیں کہ شاید کوئی ضمانتی آیے اور قید تنہائی سے چھٹکارا دلا ہی دے۔ بہر حال غورسے دیکھنے کے باوجود کچھ نظر نہ آیا۔ بیڑیوں سے باندھے قدموں کو پھرسے اٹھا کر آگے چلنے کی کوشش کی بڑی مشکل سے قدم اٹھایا ہی تھا کہ پھر سے کسی نے آواز دی میں رک گیا مڑ کر دیکھنے کے بجائے صرف جواب دیا کہ ”آپ کون ہیں؟ “

چہرہ تو نظر نہیں آرہا تھا لیکن اس کی آواز میں بلا کا درد تھا۔ اس کی باتوں میں انتہاء کا دکھ تھا۔ اس کی حالت نے تو مجھے اپنا حال بھی بھلا دیا۔

کہنے لگا ”کئی بار نشانہ باندھا لیکن تم بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ میں توتمھیں اس وقت سے جانتا ہو ں کہ جب تمھیں یہ سزا بھی نہیں ہوئی تھی۔ کئی بار تمھیں دیکھا اور ملنے کا سوچا لیکن تم اتنے مغرور تھے کہ چھوڑ ہی دیا۔ جب تمھیں قید با مشقت ہوئی تو میں سمجھا میری ہی بد دعا لگی ہے“۔ اس کی یہ باتیں سن کر میں بیٹھ گیا گویا کہ رگ و ریشے میں دوڑتا ہوا خوں جم گیا ہو۔ میرا دماغ شل ہو رہا تھا۔ عجیب سوچ میں پڑ گیا پھر کہنے لگا کہ ”کئی بار تمھاری کالی کوٹھڑی کے دروازے پر کھڑا ہو کر تجھے دیکھتا رہا لیکن تم نے کبھی مڑ کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا ایک بار تمھیں جیل میں ملنے آیا تھا تمھیں آوازبھی دی لیکن تم نے سنا ہی نہیں اس لیے میں یہ سوچ کر وآپس چلا آیا کہ پتا نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتا“۔

اس کی صرف آواز آرہی تھی۔ مجھ سے اتنا دور تھا کہ بالکل نظر نہیں آرہا تھا اور قریب اتناکہ اس کی سانسیں بھی گن سکتا تھا۔ پسینے سے شرابور جھکے سر کے ساتھ اس کی باتیں سن رہا تھا درد سے لبریز باتیں جیسے بجلی بن کر گر رہی ہوں میں اپنی قوت سخن کھو چکا تھا۔ میرا وجود اس قدر بھاری ہو چکا تھا کہ جیسے چھت مجھ پر آن پڑی ہو ہو میرا وجود بالکل ساکت ہو چکاتھا میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر کے سوچنے لگاکہ یہ کیسا شخص ہے جس نے میرے حوالے سے عجیب وغریب تصورات خود ہی قائم کر لیے سارے سوال بھی خود کیے اور ان کے جواب بھی خود تلاش کرتا رہا۔

کہان وہ اور کہاں میں۔ کبھی چشم تصور میں بھی نظر اتنے دور نہ پہنچ سکی۔ پہنچتی بھی کیسے میرا اس سے ”مقابلہ“ ہی کیا تھا۔ میں ”کالی کوٹھڑی“ کا مقیں اور وہ تعیشوں سے بھری زندگی کا مالک۔ اسے دنیا کے سارے وسائل میسر اور میں کہ تنہاء و نہتا۔ بھلا میں ”لڑتا“ بھی تو کیسے کہ جوڑ ہی کوئی نہیں تھا۔ اس ”دشمنی“ میں سوائے شکست و رسوائی کے مجھے حاصل بھی کیا ہونا تھا۔

کیا سوچ رہے ہو؟ اس کی آوازپر میں نے چونک کر کہا کہ نہیں کچھ نہیں۔ پھر کہنے لگا کہ ”اگر اس باربھی تم جواب نہ دیتے توپھرشاید ہی کہ تم سے بات ہوتی“۔ میں نے استفسار کیا کہ پھر آج بات کیو ں کی ہے۔ تواس نے ٹھنڈی آہ بھری اورکچھ دیر کی روح فرساء خاموشی کے بعد کہا کہ ”صرف تمھیں یہ بتانے کے لیے کہ مجھے بھی سزاء ہوئی ہے میرے ہاتھوں میں بھی ہتھکڑی لگی ہے۔ میرے پاوٗں میں بھی بیڑیاں پڑ گئی ہیں میں بھی قید با مشقت کاٹ رہا ہوں۔ میں بھی قید تنہائی میں ہوں“۔ اس کی آنکھوں سے گرنے والے آنسوں کی ٹپ ٹپ کی آواز میں سن سکتا تھا اس کی آواز جیسے دب گئی ہو اپنی حالت پر قابو پا کر پھر کہنے لگا کہ ”قید با مشقت تو تھی ہی لیکن تنہائی کا احساس دل کھائے جا رہا ہے۔ روز سوچتا ہوں کہ کوئی تو آئے جو مجھے اس کرب سے نکالے میں بھی آزاد فضاء میں سانس لے سکوں۔ میں بھی زندگی کی خوشی دیکھ سکوں۔ اس انتظار میں آنکھیں پتھریا گئی ہیں۔ لیکن کوئی امید بھی نہیں کہ جو اب ایسا ممکن ہو“۔ اس کے یہ الفاظ کسی قیامت سے کم نہیں تھے بے ساختہ اس کی ہچکی بندھ گئی اور دیر تک اس کے رونے کی آواز آتی رہی۔

کون ضمانت کروائے گا کون اس قید با مشقت سے رہائی دلائے گا کون زندگی کی خوشیاں وآپس لائے گا مایوسی اور نا امیدی کا سمندر دماغ میں گھوم رہا تھا انتہا کی بے بسی نے گویا بے جان کر دیا تھا۔ جس شخص کے پاوں میں چھ بیڑیاں ہوں تووہ پانچ بیڑیوں والے قیدی کو کیا خاک رہائی دلائے گا؟ بس شب فراق تھی قید تنہائی تھی اور رات کی گہری ہوتی ہوئی سیاہ تاریکی۔ اس کے قدموں میں پڑی بیڑیوں کی آواز نے مجھے پھر چونکا دیا ”سارے تصورات بھی خود قائم کیے سارے سوال بھی خود کیے سارے جواب بھی خود دیے۔

میری کوٹھڑی کے دروازے پر آئے میرے حال کو دیکھا لیکن مجھے احساس تک نہ ہونے دیا مجھے آواز بھی ایسی دی کہ میں سن نہ سکا آج بھی اوچھل رہ کر باتیں کررہے ہو سامنے کیوں نہیں آتے۔ میں آپ کو دیکھ کیوں نہیں سکتا“ میرے سوال پر اپنی حالت پر قابو پاتے ہوئے بولا کہ ”ہاں آنکھیں کھولو گے تو دیکھ سکو گے ناں“۔ عشق وسرور کی مستی میں غرق ان لمحات کو میں امر کرنا چاہتا تھا جیل کی قید تنہائی میں کسی کا یوں احساس مجھے ایک بار پھر جینے کی تمنا بخش رہا تھا۔

میں تنہائی کے سارے دکھ بھول گیامجھے ہاتھوں میں بندھی ہتھکڑی توٹتی محسوس ہوئی۔ تن بدن میں لگی آگ شعلہ جوالہ بن رہی تھی اپنی ساری قوت مجتمع کر کے اٹھنے کی کوشش میں میں نے جونہی آنکھیں کھولیں تو پھر گر پڑا سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں تھا وہ ہاتوں میں بندی ہتھکڑی وہی پاوں میں پڑی بیڑیاں وہی تنہائی وہی شب فراق۔ شاید میرا خیال تھا جو ٹوٹ گیا شاید میرا خواب تھا جو بکھر گیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments