سفراں دا تھکیا میں نیئں جگایا


انسان اس دنیا میں بہت ترقی کر چکا ہے۔ اس نے اپنی سمجھ بوجھ سے بہت کچھ ایجاد کر لیا ہے۔ ہم کئی میلوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر لیتے ہیں۔ ہزاروں میل دور پیغامات کی ترسیل سیکنڈز میں کر سکتے ہیں۔ جبکہ روز گار کے لیے بھی دور دراز کے ممالک جاتے ہیں، خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مغربی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ جس سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے روزگار ملتا ہے۔

روٹی، کپڑا، تعلیم اور مکان ہر شخص کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اس سب کے لیے ہر شخص محنت کرتا ہے۔ مگر ایسے لوگ جنہیں ملک میں روزگار نہیں ملتا، وہ روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک کی طرف نکل پڑتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے اس کے مطابق ملک میں وسائل بہت کم ہیں۔ یہ کسی بھی ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ ایسے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

بدقسمتی سے اس وقت ہمارے ملک میں تقریباً پندرہ ملین بچے ایسے ہیں جو سرے سے ہی سکول نہیں جاتے۔ ایسے لوگ بڑے ہو کر روزگار کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اور جو لوگ کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں ان کو بھی اچھے روزگار کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ جس تناسب سے پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اور جتنی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں آپ اندازہ لگاسکتے ہیں اگلے دس پندرہ سال میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔

ہمارے معاشرے میں خاص کر دیہاتوں میں بہت سے لوگ بیرون ممالک ہوتے ہیں۔ جو حلال روزی کے حصول کے لیے محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ بارہ، چودہ گھنٹے ڈیوٹی کرنے کے بعد وہاں نا تو ماں کے ہاتھوں کی پکی روٹی ملتی اور کپڑے بھی اکثر کو خود دھونے پڑتے۔ جہاں پر ایک کمرے میں میں آٹھ، آٹھ لوگ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ سب مسائل کے ساتھ وہ گھر والوں کی خواہشات پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ چھوٹے بھائی کو موٹر بائک کے لیے پیسے بھی بھجوانے اور بہن کے جہیز کے لیے بھی تو پیسے اکٹھے کرکے بھیجنے ہوتے۔ گھر والوں کو بالکل خیال نہیں ہوتا کہ ہمارے بیٹے کو وہاں کتنی محنت کرنا پڑ رہی ہے۔ وہ بس اپنے مطالبات بتا رہے ہوتے ہیں۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جن کی شادی کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزرتا اور وہ کئی مہینوں یا سالوں کے لیے بیرون ممالک کمانے چلے جاتے ییں۔ وہ بیوی جن مشکلات اور بے چینی سے گزرتی ہے وہی بتا سکتی ہے۔ پھر اس کے والدین جو بوڑھے ہو چکے ہیں جنہوں نے بچپن سے بڑے نازوں سے پالا تاکہ بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے گا اور ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ لیکن ضرورت معاش کے لیے وہ ان سے بھی دور رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

پیٹ بہت ظالم ہے، اپنوں سے دور کروا دیتا ہے۔ بس قدرت کا نظام ہے کوئی پیدا ہوتے ہی کروڑوں، اربوں کی جائیداد کا مالک ہوتا ہے۔ کوئی ساری زندگی محنت کر کے بھی اتنا نہیں کما پاتا۔ خیر جو بھی ہے اسے بھرنا تو ہے، انسان اسے بھرنے کے لیے عمریں گزار دیتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک بیوی سے دور، بچوں سے دور، ماں باپ، بہن بھائیوں اور دوست یاروں سے دور رہ کر اس مختصر سی زندگی میں لمبی جدائی کاٹتا ہے۔ عید ہو یا کوئی شادی بیاہ مگر یہ لوگ باہر کمانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے تمام لوگوں کی عمر اور روزی میں برکت ڈالے۔

تو کی جانے یار فریدا
روٹی بندا کھا جاندی اے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments