عشق اسلام اور فلاحِ انسانی


کچھ دنوں سے ایک عجیب سے فلسفے میں الجھ گئی ہوں۔ کچھ چیزیں ایسی سامنے آئیں جن پہ کبھی اس انداز میں سوچا نہیں۔ ضرورت نہیں پڑی یا پھر شاید ڈائریکشن نہیں ملی کبھی اس طرح۔ ایک سوچ تو وہ وہ آئی تھی کہ ہمیں مذہب ایک انجام، ایک سزا، جزا کے پیمانے پر رکھ کر سکھایا جاتاہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ فرض ہے تو یہ کرنا ہی کرنا ہے۔ ذرا سا کام یا فرض نبھاتے ہی جزا کے بارے میں بتادیا جاتا ہے۔ نماز فرض ہے پڑھو ورنہ اللہ ناراض ہوگا۔ جو جان کے چھوڑے گا وہ جہنم میں جائے گا۔

کبھی یہ کیوں نہیں بتایا گیا کہ نماز سیدھی سیدھی فرض ہے۔ فرض ادا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ سزا اور جزا کے چکروں میں ایسا الجھاتے ہیں کہ بیچ میں سے فرض کا نکتہ غائب ہوجاتا ہے۔

ایسے ہی کسی کے لئے کوئی کام آسان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اللہ ہمیں اس کا اجر دے گا۔ کبھی یہ کیوں نہیں سوچا جاتا ہے کہ اگر کوئی مسئلے میں ہے تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے تاکہ اگلے کی تکلیف کم ہو۔ اگلے کا مسئلہ حل ہو۔ ہم کسی کا ذرا سا کام کرکے سیدھے جنت کی فلائٹ کا فری ٹکٹ سوچ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ جبکہ قرآن تو کہتا ہے کہ ہمارے ہمسائے میں اگر کوئی غیر مومن مر گیا تو اس کا سوال بھی ہم سے کیا جائے گا۔

اب جنت کی طرف جاتی ہوئی ساری فلائیٹیں بھی رک جائیں گی کہ غیر مومن مرنے کی وجہ یہ نہیں کہ کفار اللہ کے بندے نہیں ہیں پر چونکہ اسلام ایک مکمل دین ہے، دینِ فلاح ہے۔ اس لئے اللہ سبحان تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر کوئی اس کے دائرے میں آجائے۔ اور ہم جو اس کے دائرے میں ہیں تو کیا واقعی ہم نے اسے دینِ فلاح چھوڑا ہے؟

یہ بہت بڑا سوال ہے اس زاویے سے بھی اور ہر زاویے سے۔ ایک گوری آفس کولیگ کا بیٹا مسلمان ہو گیا تو ہر کوئی مجھے کہتا تھا کہ تم اس کی ماں کو بھی مسلمان کر دو بڑا ثواب ملے گا۔ پر میرے دل میں خیال آتا تھا کہ یہ کہنے والوں کو تو پہلے میں مسلمان کرلوں۔ اور ان سب سے پہلے اپنے آپ کو۔

ہمارے پاس سچے مسلمانوں والا کیا شیوہ ہے؟ اپنی نماز، اپنے روزے، اپنا اسلام اور اس کے ساتھ ہی ڈھائی انچ کی اپنی جنت۔ اور ایک بار پھر آنکھوں کے سامنے وہ منظر لہرا گیا جب آدھی رات سے لے کر فجر کی نماز تک نہ صرف فلاحِ قوم کا فیصلہ لیا گیا بلکہ اس کے عملدرآمد کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے“، صرف ایک بچے کے رونے کی آواز پہ۔ پوری ریاست میں چھوٹے بچوں کو پیدائش کے دن سے وظیفہ لگادیا گیا۔ جب بھی اس نقطے پہ آتی ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ یہ تھا اسلام جس نے لوگوں کے دل فتح کیے تھے۔ تبھی تو اس دور میں لوگ اسلام میں بس داخل ہوتے چلے جاتے تھے۔

آج کوئی ہے جو اپنے گھر پہ رکھا ہوا چراغ کسی اور کے اندھیرے مٹانے کے لئے چھوڑ دے۔ اپنی بھوک کو سائیڈ پہ رکھ کے اس وقت نوعِ انسانی جس قحطِ ہمدردی سے گزررہی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے رات کے اندھیروں میں نکلے کہ کس کس کو کہاں کہاں ضرورت ہے۔ ایک بھوکے کو اوسط کی مقدار مقرر کر کے اس جیسے سارے بھوکوں تک رزق کی رسائی آسان کردے۔

ایک اور نقطہ جو کھل کے سامنے آگیا کہ عمل کے فیصلے ہمیشہ عشق کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ عقل تو آدھی رات سے فجر تک یہ حساب نہ لگا پائی ہوگی کہ پوری ریاست میں یہ وظیفہ کون سے فنڈز سے دیا جائے گا۔ ایک کی تکلیف دیکھی۔ سب کی تکلیف دور کر دی۔ یہ عشق تھا اپنے فرضِ منصبی سے۔ اس وقت یہ نہ سوچا گیا کہ یہ کام کر دیا تو اللہ ہمیں اجر دے گا۔ بلکہ اس روتے ہوئے بچے کی آواز پہ آپ بار بار رکے کہ آخر کیا مسئلہ ہے اور پھر مسئلہ دور کردیا گیا

عشق ہی تھا کہ اک غار میں وحی اترتی ہے جبرئیل کے ہونے پہ یقین بھی کیا جاتا ہے اور رب کے احکامات پر عمل بھی۔ ایسے میں عقل کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی کہ نہ صرف نبی صلی اللہ وسلم اس وحی پر ایمان لائے بلکہ جو جو سنتا گیا بنا دیکھے ایمان لاتا گیا۔ اور پھر اس وحی کے بعد قرآن کو پتوں پر لکھاجانا، دلوں میں محفوظ کر لینا۔ اور دین جس تیزی سے پھیلا، عقل اس رفتار کو کبھی جسٹیفائی نہ کرسکے گی۔ ویسے بھی کفار زیادہ طاقتور، زیادہ باوسیلہ تھے۔ سو اس وقت ایک غریب چرواہے کی سچائی اور دیانت داری پر یقین رکھنا اور دھڑا دھڑ ایمان لانا۔ عقل کے دائرہ کار سے بالکل باہر ہے۔

اس سب کی تفصیلات میں جائیں تو صرف یہی ملتا ہے کہ اسلام دینِ فلاح ہے۔ فلاح تمام انسانیت کی مشکلات کو بلاشرط مذہب، رنگ، نسل۔ سنا جائے اور کر دیا جائے کوئی سوال، کوئی شرائط راستہ نہ روکیں۔ کہیں شک نہ رہے۔ شراب کی ممانعت کا ذکر چلا تو حکم آتے ہی سب نے منہ سے لگی ہوئی شراب گلی میں بہادی۔ عقل تو پہلے تجزیہ کرتی لیکن نہیں کیا گیا۔

اس وقت جو حالات ہیں اس میں انسان کو اپنی بساط سمجھ آجانی چاہیے۔ ورلڈ پاور تیل خریدنے والوں کو پیسے بھی دے گی۔ آج سے پہلے ورلڈ پاور کا سارا جھگڑا تیل سے شروع ہوتا تھا۔ اب تو ہمارے پاس بھی نشانیاں آگئیں۔ ہم نے بھی اپنی آنکھوں سے تباہی اور بربادی دیکھ لی۔ مگر ہماری عقل آج بھی یہ تسلیم نہیں کرتی کہ موت کے اس ریلے میں ہم بھی بہہ سکتے ہیں سو ہمارے پاس صرف آج ہے۔ اور آج میں انجام، جزا، سزا کا سوچے بغیر عقل کو سائیڈ پہ رکھ کے عشق کا ہاتھ تھام کے کیا ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے کہ ایسے کون کون سے انسانی فلاح کے کام جو نہ ہو سکے وہ ہو سکتے ہیں بالکل ویسے راتوں کو گلیوں میں پھر کے (اس سے مراد یہ ہے کہ پتہ لگانا ہے کہ کس کس جگہ ہم اپنی مدد پہنچاسکتے ہیں ) اور آدھی رات سے لے کر فجر کے فاصلے پر فیصلے لئے جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments