یوول حراری : کیا کرونا وائرس موت سے متعلق انسانی رویے کو بد ل دے گا؟


جدید دنیا اس بات پر یقین کرچکی ہے کہ انسان موت پر قابو پا کر اسے مات دے سکتا ہے، یہ ایک انقلابی رویہ ہے۔ لیکن تاریخ کے اوراق پلٹنے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں انسان آسانی سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ جدید دور میں بھی اکثر مذاہب نے موت کو ناصرف ناگزیر مقدر قرار دیا، بلکہ اسے زندگی میں معنویت کے اہم سبب سے تعبیر کیاہے۔ اس سلسلے میں وضاحت یہ دی گئی کہ اصل زندگی تو موت کے بعد کی ہے۔ یہاں گزاری گئی زندگی کے بدلے میں دائمی نجات یا پھر ہمیشہ کے عذاب کا مزہ چکھنا ہوگا۔ عیسائیت، اسلام اور ہندومت جیسے مذاہب کے مطابق ایسی دنیا بے معنی ہے جس میں موت اور بعد از مرگ جنت اور جہنم کا تصور نہ ہو۔ تاریخ عالم کے بہترین دماغ صدیوں سے موت کو شکست دینے کی بجائے مختلف النواع مثبت معنی دے رہے ہیں۔

گلگامش کی رزمیہ نظمیں، اوریوفیوس اور یوریڈائس کی دیومالائی کہانیاں، بائبل، قرآن، وید اور ان گنت مقدس کتابوں اور کہانیوں نے انسان کو صبر کرنے کا درس دیا اور سمجھایا کہ ہمارا جینا مرنا خدا، برہما یا فطرت کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں عاجزی اور احترام کے ساتھ اس فیصلے کو مان لینا چاہیے۔ عام انسان کو یقین دلایا جاتا ہے کہ موت کا خاتمہ کرنا ایک گوشت پوست کے انسان کے بس کی بات نہیں ہے، ہاں شاید خدا کسی دن ایک اشارہ کرے اور موت کا خاتمہ ہوجائے۔

پھر سائنسی انقلاب رونما ہوا۔ سائنس دانوں کے نزدیک موت محض ایک تکنیکی مسئلہ ہے، کوئی خدائی فرمان نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان امر ربی سے نہیں مرتا، بلکہ کوئی تکنیکی خرابی اس کی وجہ ہوتی ہے مثلاً دل خون پمپ کرنا چھوڑ دیتا ہے، کینسر جگر کر تباہ کردیتا ہے، پھیپھڑوں میں وائرس کئی گنا ہ بڑھ جاتا ہے، وغیرہ۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ان تمام تر تکنیکی مسائل کے ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً باقی تکنیکی مسائل۔ دل اس وقت خون پمپ کرنا بند کرتا ہے جب دل کے پٹھوں کو کافی مقدار میں آکسیجن نہیں ملتی ہے، کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جگر میں کینسر کے خلیے پھیل جاتے ہیں۔ وائرس میرے پھیپھڑوں میں آگیا کیونکہ میں جس بس میں سفر کر رہا تھا اس میں کسی کے چھینکنے سے یہ ذرات فضا میں پھیل گئے تھے۔ میں نے ابھی جو باتیں کی ہیں ان میں سے کوئی بھی مابعد الطبعیات نہیں ہے۔

سائنس اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہر تکنیکی مسئلہ کا حل تکنیکی ہوتاہے۔ موت پر قابو پانے کے لیے ہمیں مسیح کے دوبارہ آنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ یہ کام سائنسدان اپنی لیبارٹریوں میں کر سکتے ہیں۔ اگر دل دھڑکنا چھوڑ دے تو ہم اسے پیس میکر کی مدد سے متحرک کرسکتے ہیں، حتی کہ نئے دل کی پیوند کاری بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر کینسر انسانی جسم کے اندر توڑ پھوڑ کا باعث بننے لگے تو ہم اسے تابکاری سے مار سکتے ہیں۔ اگر وائرس پھیپھڑوں کے اندرپھیل جائے تو ہم اسے نئی دوائیوں سے شکست دے سکتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ فی الحال ہم تمام تکنیکی مسائل کا حل نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے کہ ہم ان سب مسائل کو تکنیکی بنیادوں پر درست کرنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ آج بہترین انسانی دماغ موت کو بامعنی بنا کر پیش کرنے میں وقت ضائع نہیں کر رہا ہے، بلکہ وہ زندگی کے دورانیہ کو بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ وہ بیماری اور بڑھاپے کے ذمہ دار مائیکرو بائیولوجیکل، فزیو جیکل اور جینیاتی نظام کی تحقیقات کر رہا ہے اور نئی دوائیں اور انقلابی علاج تیار کر رہا ہے۔

انسان اب تک زندگی کو بڑھانے کی کوششوں میں قابل ذکر حد تک کامیا ب رہا ہے۔ پچھلی دو صدیوں کے دوران پوری دنیا کے انسانوں کی طبعی عمر 40 سال سے بڑھ 72 سال اور ترقی یافتہ ممالک میں 80 سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ خاص طور پر بچے موت کے منہ سے نکل چکے ہیں۔ بیسویں صدی تک کم ازکم ایک تہائی بچے جوانی کی دہلیز تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔ نوجوان بچپن کی بیماریوں مثلاً پیچش، خسرہ اور چیچک کا شکار ہوجاتے تھے۔ سترہویں صدی کے انگلینڈ میں ہر ایک ہزار بچوں میں سے ڈیڑھ سو بچے اپنے پہلے سال کے دوران فوت ہوجاتے تھے اور صرف سات سو بچے پندرہ سال کی عمر کو پہنچتے تھے۔ آج ایک ہزار میں سے صرف پانچ بچے اپنے پہلے سال میں فوت ہوتے ہیں، جبکہ 993 بچے اپنی پندرہویں سالگرہ مناتے ہیں۔ پوری دنیا میں بچوں کی اموات پانچ فیصد سے کم ہے۔

طبعی عمر میں اضافہ کی کامیابی نے انسان کا زندگی کے بارے میں نقطہ نظر بدل دیا ہے۔ اگرچہ آج بھی روایتی مذہب بعد از مرگ زندگی کو معنویت سے تعبیر کرتا ہے۔ مگر اٹھارویں صدی کے نظریات جیسے لبرل ازم، سوشلزم اور حقوق نسواں نے بعد از موت زندگی کے بارے میں دلچسپی ختم کردی ہے۔ کارل مارکس، ایڈم سمتھ اور سائمون ڈی بیوویر کی تحریروں کے مطابق اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بے کار ہے کہ ایک کمیونسٹ، کیپٹلسٹ یا حقوق نسواں کے حامی افراد کو مرنے کے بعد کیا ہوتاہے۔

نیشنل ازم وہ واحد جدید نظریہ ہے جو موت کو ابھی بھی مرکزی اہمیت کا حامل مانتا ہے۔ شاعری اور مایوس کن لمحات میں قوم پرستی یہ یقین دلاتی ہے کہ ملک و قوم کے لیے مرنے والا مردہ نہیں بلکہ قوم کی یادوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ تاہم یہ وعدہ اس قدر غیر واضح اور مبہم ہے کہ اکثر قوم پرست بھی اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ ان کا کیا بنناہے۔

کیا موجودہ وبائی مرض موت کے بارے میں انسانی رویے میں کوئی تبدیلی لائے گا؟ یقیناً کووڈ 19 انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ہماری کوششوں کو دوگنا کردے گا۔ کووڈ 19 کے ردعمل کے طور پر ثقافتی عمل امید اور غم و غصے کا میلاپ ہوگا۔

قرون وسطی کے یورپ میں جب وبائیں پھیل گئیں تو لوگ اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کے تحفظ کے خوف سے دوچار ہوئے تو ان کا ثقافتی عمل یہ تھا کہ لوگوں نے مسئلہ کے حل کی ذمہ داری لینے سے مکمل دست برداری کا اظہار کیا۔ ماہرین نفسیات اس عمل کو شاید معلوم بے بسی (learned helpless) کا نام دے سکتے ہیں۔

لوگوں نے ایک دوسرے کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ ”یہ خدا کی مرضی ہے، جبکہ چند ایک نے وباؤں کو انسانی گناہوں کا صلہ قرار دیا، ان کے بقول ’ہم برے لوگ اسی کے حقدار ہیں‘ ۔ لیکن حوصلہ رکھیں آخر کار سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اچھے لوگوں کو انعام میں جنت ملے گی۔ دوائی تلاش کرنے جیسے کاموں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اجتماعی طور پر یہ مان لیا گیا کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ بیماری خدا نے بھیجی ہے، وہی اس کا حل بھی نکالے گا۔ اس لیے جو انسان سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ذہانت کو استعمال کر کے اس کا حل نکال لائیں گے وہ اپنے دیگر گناہوں کی استغفار کرنے کی بجائے، ان میں اضافہ کررہے ہیں۔ بھلا خدا کے منصوبوں کو ناکا م کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments