میڈیا ہمارا کیا لگتا ہے؟


\"malike-ashter\"یہ سوال اس لئے جاننا ضروری ہے کیونکہ ہماری زندگی میں میڈیا کا عمل دخل اور اثر بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اطلاعات کے حصول کے لئے تو ہم پہلے ہی اس پر انحصار کرتے تھے اب ہماری سوچ کو بھی یہی طے کرنے لگا ہے۔ آپ لاکھ سوچیں کہ فلاں فلاں مسائل پر میڈیا کو توجہ دینی چاہئے لیکن میڈیا کو جو اچھا لگے گا وہی دکھائے گا اور آپ لاکھ سر مار کر وہی دیکھیں گے۔ میڈیا کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو پاکستان کے کسی خوبصورت چائے بیچنے والے نوجوان کی آنکھوں میں نہیں اترنا ہے، نہ ہی آپ کو اس بات سے غرض ہے کہ نیپال کی کون سی سبزی فروش لڑکی جان لیوا ہونے کی حد تک خوبصورت ہے۔ آپ لاکھ چاہیں کہ میڈیا، صحت، تعلیم، روزگار، معاشرتی مسائل پر بات کرے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ میڈیا وہی دکھائے گا جو وہ چاہے گا اور آپ وہی دیکھیں گے جو وہ دکھائے گا۔ میڈیا آپ کی اس کمزوری کو جانتا ہے کہ آپ دن بھر اس کی برائی کرنے کے باجود پرائم ٹائم میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو جائیں گے اور آپ کا ہاتھ بے اختیارانہ ریموٹ کی مدد سے وہ چینل ڈھونڈنے میں لگ جائے گا جہاں بحث کے نام پر طوفان بدتمیزی ہو رہا ہو، پگڑیاں اچھالی جا رہی ہوں، مہذب لفظوں میں غلیظ گالیاں دی جا رہی ہوں۔

سوال پھر وہی میڈیا ہمارا کیا لگتا ہے جو ہم اس کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو گئے ہیں۔ کیا میڈیا جمہوریت کا کوئی ستون ہے؟ کیا معاشرے میں اس کا کوئی مثبت کردار ہے؟ یا پھر ہم ٹی وی چینلوں کی شکل میں حالات حاضرہ پر سیریل دیکھ رہے ہیں؟ یہ میڈیا کسی کا سگا نہیں۔ نہ اس نوجوان چائے والے کا جس کی تعریف میں اس نے آدھے آدھے گھنٹے کے شو دکھائے، نہ اس سبزی والی کا جو اس کے بقول آپ کی سانسیں روک دینے والا حسن رکھتی ہے۔ اسے اس سے مطلب نہیں کہ گزشتہ ہفتے اس نے جس چائے والے ہیرو کے گیت گائے تھے اس ہفتے اس کا کیا ہوا؟ سبزی والی کی زندگی بہتر ہوئی یا نہیں؟ غیرت کے نام پر قتل لڑکی کے ساتھ انصاف ہوا؟ میڈیا کی مثال اس شکاری جیسی ہے جسے روز تازہ کھانا چاہئے، پیٹ بھر جانے کے بعد کھانے کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا اس کا وطیرہ ہے۔

دراصل یہ ہماری طبیعتوں کی سادگی ہے جو ہم میڈیا کو مصلح مان بیٹھتے ہیں۔ یہ نہ تو کسی خانقاہ کا درویش ہے نہ کمنڈل لے کر جنگل جنگل گھومنے والا رشی منی۔ یہ بس میں چڑھ کر سرمہ بیچنے والے کی طرح ہے جسے اس بات سے مطلب نہیں ہوتا کہ میں نے پچھلی بس میں جتنوں کو سرمہ بیچا تھا اس میں سے کتنوں کی بینائی چلی گئی ہوگی؟ ایک کہاوت ہے حاکم کے اگاڑی اور گھوڑے کے پچھاڑی کبھی نہ نکلنا، شاید اس کا مطلب یہ تھا کہ حاکم نہ جانے کس بات پر معتوب کر دے گا اور گھوڑے کے پیچھے سے نکلے تو پتہ نہیں کس موج میں آکر لات رسید کر دے۔ اس کہاوت کے ذیل میں میڈیا کی مثال گھوڑے پر بیٹھے حاکم کی سی ہے جس کے آگے نکلتے بھی نہیں بنتی اور پیچھے سے نکلنا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ یہ پتہ نہیں کب کس احتجاج کو انقلاب کا نام دے دے گا اور جب موڈ خراب ہوگا تو اسی کو سرکشی اور بغاوت کہنے لگے گا۔ یہ ہمیشہ کو نہ عمران خان کا ہوکے رہا، نہ مولانا طاہرالقادری کا اور نہ ہی انا ہزارے کا۔

میڈیا بس ایک کا سگا ہے، اشتہاروں کا۔ بڑے سے بڑے حساس موضوع کو بیچ میں کاٹ کر اشتہار چلانے میں نہ اسے شرمندگی ہوتی ہے اور نہ کچھ معیوب لگتا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے ہم نیوز چینلوں کی شکل میں اشتہاری چینل دیکھ رہے ہیں جس میں اشتہاروں کے بیچ بیچ میں حالات حاضرہ پر کچھ کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ بات یہاں تک آ گئی مگر سوال وہیں کا وہیں ہے، میڈیا ہمارا کیا لگتا ہے؟ اگلی بار جب کسی نیوز چینل پر دکھا رہے کسی پروگرام کو آپ خرافات قرار دیں اور اس کے بعد بھی وہ خرافات دیکھتے رہنے کو ہی آپ کا دل کرے تب اپنے دل سے پوچھئے گا، میڈیا ہمارا کیا لگتا ہے؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments