طعامُ المسکین



با اعتبارِ لغت مسکین ساکن سے ہے۔ گردشِ زمانہ مسکین کو ساکن کر چکی ہوتی ہے۔ مسکین معاشی سرگرمی میں حصہ لینے اور پھر اپنا حصہ پانے سے عاجز ہوتا ہے۔ عجز بھی ساکن کر دیتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒ مسکین کی تعریف یوں کیا کرتے کہ مسکین وہ ہے ’جو محنت پوری کرے مگر اُس کا معاوضہ اُسے پورا وصول نہ ہو، آپؒ فرمایا کرتے‘ اس اعتبار سے ہماری آدھی قوم مسکین ہے۔ اس تعریف کو لے کر جب میں باہر نکلتا ہوں تو مجھے قدم قدم پر مسکین دکھائی دیتے ہیں۔

پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھانے والی سفید پوش گھرانوں کی استانیاں اس تعریف میں سرِ فہرست ہیں۔ ہماری مساجد اور مدارس میں معمولی سے معاوضے پر کام کرنے والے مولوی صاحبان بھی مسکین ہی کہلائیں گے۔ بجز اُن کے جنہوں نے دین کو دنیا بنا لیا اور اللہ کی آیات اور احادیثِ رسولؐ کو اپنے مفاد اور فرقے کے تحفظ کے لئے استعمال کیا۔ اخباروں میں کام کرنے والے صحافی، اپنی جان پر کھیل کر خبریں لانے والے رپورٹر بھی مسکین کہلائیں گے۔ بجز اُن کے جنہوں نے قلم کو اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنا ڈالا۔

سچ پوچھیں تو مجھے پولیس کے اہلکار بھی مسکینوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ سخت موسم میں ہماری گلیوں اور دفتروں کی چوکیداری کرنے والے سیکیورٹی گارڈ کتنے کم معاوضے پر کتنی اہم ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ میں اپنے طب کے شعبے کا ذکر اس لیے نہیں کر رہا کہ میرے نزدیک یہ شعبہ سرتاپا خدمت ِ انسانی کا شعبہ ہے، اس میں کسی معاوضے کی طلب رکھنا، کسی ہڑتال وغیرہ کی کال کرنا، مریض کے علاج میں اپنی اَنا کو زیرِ بحث لانا، پیشگی فیس لے کر علاج کرنا، امیر اور غریب مریض میں فرق رکھنا۔ غرض یہ سب امورِ نفسانی اس شعبے کے تقدس کے منافی ہیں۔ یہ درویشوں کا شعبہ ہے، یہاں دنیا داروں کا گزر نہیں، جو لوگ اس شعبے کو ایک کیریر کے طور لیتے ہیں وہ خود بھی فرسٹریٹ ہوتے ہیں اور معاشرے میں بھی فرسٹریشن کا باعث بنتے ہیں۔

طعامُ المسکین۔ اِنفاق فی سبیل اللہ کا ایک الگ اور منفرد شعبہ ہے۔ کھانا پکا کر کھلانا بہت سے اُمورِ خیر پر بھاری ہے۔ زکوٰۃ، عشر، فطرانہ، خمس اور صدقہ جات سے جدا شعبہ طعام المسکین ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں اس کا ذکر الگ آیا ہے، اور بار بار آیا ہے۔ طعام المسکین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اَز رُوئے قرآن نماز جیسی اہم عبادت بھی اکارت چلی جاتی ہے اگر نماز پڑھنے والا مسکین کو کھانے کھلانے کی طرف رغبت نہیں دلاتا، یعنی محض کھانا کھلانے کی طرف توجہ مبذول کروانا بھی نجات کا باعث ہے۔ فطرت انسانی ہے کہ انسان دامے درمے سخنے ہمیشہ اسی چیز کی طرف رغبت دلاتا ہے جس طرف وہ خود راغب ہوتا ہے۔ بس جسے کھانا کھلانا مرغوب ہے ’اُس کی نماز اور دیگر عبادات بچ گئیں۔ ورنہ نہیں!

کھانا کھلانا ایک عجب راز ہے۔ کھانا کھلانے والا ربوبیت کے عمل میں شامل ہو جاتا ہے۔ ربِ حقیقی تو وہی رب الارباب ہے۔ وہی خیرالرازقین اپنا رزق پہنچانے کے لئے انسانوں کی دنیا میں سے کسی انسان کو بطور وسیلہ منتخب کر لیتا ہے۔ خالقِ حقیقی وہی ایک ذات ہے ’جس نے کُل کائنات تخلیق کی‘ وہی خالق ہمارے ماں باپ کو ہماری تخلیق کے وسیلے کے طور پر منتخب کر لیتا ہے۔ وہ رب العالمین ہماری ربوبیت کے لئے ہماری ماں کو بطور ربّیہ ذمہ داری سونپ دیتا ہے، اور پھر ان دو چھوٹے رب۔ اَز روئے قرآن ”ربیانی صغیرا“۔ (یعنی ماں باپ) کے حقوق ہمیں جتلا دیتا ہے، یہاں تک کہ ان کے سامنے ”اف“ کرنا بھی دائرۂ ادب سے باہر ہونا تصور کر لیا جاتا ہے۔ باپ کی رضا میں رب کی رضا اور ماں کے قدموں تلے جنت کا ہونا ہمیں بتلا دیا گیا ہے۔ طے ہوا کہ رب تعالیٰ اپنی صفتِ ربوبیت میں شامل ہونے کی سعادت جنہیں عطا کرتا ہے ’ان کی قدر ومنزلت بیان سے باہر ہے۔

کسی کے پیٹ کی آگ بجھائی جائے تو انسان کے لئے جہنم کی آگ بجھا دی جاتی ہے۔ کھانا اِنسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کا خیال رکھنے والا اپنی بنیادی ضروریات سے بے نیاز کر دیا جاتا ہے۔ جو کسی کی حاجت پورا کرنے میں مصروف ہو گیا ’اُس کی حاجات پورا کرنے کی ذمہ داری قدرت نے خود اُٹھا لی۔ کارِ ربوبیت میں شامل انسان قدرت کا ایجنٹ بن جاتا ہے۔ اور کوئی ایجنسی اپنا ایجنٹ کھونا پسند نہیں کرتی۔

صوفیا کرام طعام المسکین کے رحمانی راز سے آشنا تھے، اس لیے انہوں نے اپنے آستانوں پر لنگر کا اہتمام کیا۔ انہوں نے جسم اور روح دونوں کی ربوبیت کا اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں بابا بلھے شاہؒ طعام المسکین کی طرف رغبت دلانے میں پیش پیش پائے گئے :

اِکڑ کھڑکے، دُکڑ وجے، تتا ہووئے چلھا
آن فقیر تے کھا کھا جاون، راضی ہووے بلّھا

ہمارے بابا جی واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ”عذاب ٹالنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روٹی پکاؤ، تندور کی روٹی پکاؤ، کسی ایک بھوکے کے پیٹ میں اگر کھانا چلا گیا تو سمجھ لو کہ تمہارے سر سے دوزخ ٹل گئی۔ یہ اتنے بڑے راز کی بات ہے“۔ ایک اور جگہ آپؒ فرماتے ہیں ”امیر آدمی دو نمازیں زیادہ پڑھنے سے نہیں بخشا جائے گا بلکہ وہ مال جو اُس نے قید کر رکھا ہے ’اُس کے خرچ کرنے سے اُس کی فلاح ہو گی“

اس قوم پر اگر یہ کرونائی عذاب ٹلتا نظر آتا ہے تو اس کی واحد وجہ اس قوم کا طعام المسکین کی طرف رغبت ہے۔ اس لاک ڈاؤن کے نیتجے میں پیدا ہونے والی بیروزگاری اور بھوک کو حکومتیں اپنے انداز سے نپٹتی رہیں گی لیکن یہاں ہر شخص کو اپنے حصے کی شمع کی طرح اپنے حصے کا تندور بھی جلانا ہوگا۔ یہ دیکھ کر ایک گونہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ آج کل طعام المسکین کے کارِ خیر میں شامل ہیں۔ معاشی طور پر خوشحال ہوں ’نہ ہوں‘ بحمد للہ! یہ قوم قلبی و روحانی اعتبار سے خوش حال ضرور ہے۔ اِس کا دل اور دسترخوان کھلا ہے۔ اس مٹی میں خاصا نم موجود ہے۔ اسی مٹی سے رسولِ ہاشمیؐ کو خوشبو آئی۔

طعام المسکین ہاشمی سنت ہے۔ رسولِ خداﷺ کے پردادا محترم حضرت ہاشمؑ قحط کے دنوں میں مکہ اور گرد و نواح میں گوشت کے شوربے میں روٹی چورا چورا کر کے بھوکوں کو کھلایا کرتے تھے۔ اسی کارِ خیر کی مناسبت سے آپؑ کا نام نامی ہاشم مشہور ہو گیا۔ ہاشمی گھرانہ بڑا سخی گھرانہ ہے۔ انسانیت کو ہدایت بھی اسی گھر سے دان ہوئی ہے۔ اسلام دسترخوانِ رسولِ ہاشمیؐ ہے۔ ہر خاص و عام کے لئے دعوتِ عام ہے۔ انسانی جسم کو روٹی کی، اور روح کو ہدایت کی طلب ہوتی ہے۔ ہدایتِ آسمانی کے حوالے سے آج انسانیت مسکین ہوئی پڑی ہے۔ اپنی تمام تر محنت، ترقی اور ٹیکنالوجی کے باوجود ہدایت و پاکیزگی حاصل نہیں کر پا رہی۔ رسولِ مہرباں ؐ کو اپنا میزبان ماننے والوں پر لازم ہے کہ ہدایت کی بھوک سے بلکتی ہوئی انسانیت کو دسترخوانِ محمدیؐ کا پتہ دیں۔

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments