کورونا خطرناک یا افواہ ساز فیکٹریاں؟



ان دنوں کووڈ۔ 19 کی وبا کے ساتھ ساتھ افواہوں کی وبا نے بھی دنیا کو اپی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سوشل میڈیا کی ویب سائٹس افواہ ساز فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں ہیں اور سوشل میڈیا وقت گزارنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لہذا ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے افواہ سازوں تو جیسے چاندی ہوگئی ہے۔ ان سائٹس پر کورونا کے حوالے سے من گھرت ویڈیوز اور پیغامات نے دیا بھر کے شہریوں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔ ان سائٹس پر جھوٹی خبروں، کہانیوں اور دعوؤں کا ایک بازار گرم ہے جس کی وجہ سے گھروں میں بیٹھے افراد کی ذہنی اذیت میں اضافہ ہورہا ہے، ایسی جھوٹی اطلاعات جن میں مختلف فلموں کے مناظر اور پرانی ویڈیوز کو کورونا سے منسلک کیا جا رہا ہے، لوگوں میں بے چینی اور خوف کا باعث بن رہی ہیں۔

مسلسل پیدا کی جانے والی افواہوں نے وبا کے خلاف دنیا کو مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے اور متحد ہو کر اس کے خاتمے کے لئے کوششیں کرنے کے عزم کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس سال جنوری سے یورپ جیسے پڑھے لکھے معاشرے میں ایک افواہ مسلسل گردش کر رہی ہے کہ کووڈ۔ 19 کی وبا فائیو جی بیس اسٹیشنز کی وجہ سے پھیلی ہے۔ ایسی باتیں خبریں، سائنسی معلومات یا محض افواہ ہیں۔ آئیے مستند ماہرین کی آراء کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

افواہوں سے جنم لیتے نقصانات:

ان افواہوں سے جہاں عالمی اتحاد کو نقصان پہنچا وہیں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی کے سفر کو بھی شدید دھچکہ لگا ہے۔ یہ افواہیں محض آن لائن سنسنی تک محدود رہتی تو شاید ٹھیک تھا لیکن اب تو ان کے سنگین خطرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں حالیہ دنوں یورپ میں بہت سے فائیو جی اسٹیشنوں کو آگ لگا دی گئی یا اہی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔

سازشی تھیوری کیا ہے؟

کورونا وائرس سے متعلق فائیو جی سازشی تھیوری نے جنوری 2020 کے اوائل میں اس وقت آن لائن توجہ حاصل کرنا شروع کی۔ جب کووڈ۔ 19 کے نام نہاد ”ماہرین“ نے اس کے تانے بانے تیز رفتار انٹرنیٹ کے ساتھ ملانے شروع کیے ۔ سچ کو جھوٹ میں بدلنے کی مہارت رکھنے والے لوگوں نے نہایت ہوشیاری سے ووہان میں ہواوے ٹیلی کمیونیشکین کمپنی کی لیب کو اس وائرس کا منبع قرار دیا اور دعوی کیا کہ فائیو جی کی ٹرانسمیشن کی وجہ سے یہ کورونا وائرس پیدا ہوا ہے۔

اس طرح کے نظریات کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فائیو جی مخالف فیس بک گروپوں اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر فروغ دیا گیا، جن میں سے اکثر کے ہزاروں ممبرز ہیں۔ حتیٰ کہ یو ٹیوب چینلز پر ایسی ویڈیوز دکھائی گئیں جن میں فائیو جی پر کام کرنے والے انجینئرز کو سخت حفاظتی لباسوں میں ملبوس دکھایا گیا۔ برطانیہ میں تو انتہا کردی گئی جہاں کچھ لوگوں نے ٹویٹ کیا کہ بیس پاؤنڈ کے نئے نوٹ پر ایک فائیو جی ٹاؤر کی شبیہ موجود ہے جو کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کی علامت کے طور پر شائع کی گئی۔ جس میں یقیناً کوئی حقیقت نہیں تھی۔

وبا پھوٹنے سے قبل بھی بعض ویب سائٹس پر ایسی پوسٹیں لگائی گئیں جن میں فائیو جی ٹاورز کے پاس پرندوں کو مردہ حالت میں دکھایا گیا، بعض ویب سائٹس نے شہد کی مردہ مکھیوں کی تصاویر جاری کیں۔

دعوؤں کا کھوکھلا پن
یہ دعوے بے بنیاد اور کھوکھلے ہیں جن کا مقصد ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کا راستہ روکنا ہے۔ فائیو جی کے خلاف پیش کیے جانے والے ان نظریات اور دعووں کی نفی معتبر بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کی جانب سے کی جانے والی ریسرچ میں ہو جاتی ہے۔ یہ تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کے انسانی صحت پر کوئی مضر اثرات نہیں ہیں۔

تابکاری سے تحفظ کے بین الاقوامی کمیشن (اکنارپ) کی جانب سے فائیو جی ٹیکنالوجی پر سات سال تک کی گئی تحقیق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کے جانداروں کی صحت پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی اس مفروضے کی سختی سے تردید کی ہے جس کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو فائیو جی ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ”وائرس ریڈیو لہروں یا موبائل نیٹ ورک پر سفر نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس ایسے بہت سے ممالک میں بھی تیزی سے پھیلا ہے جہاں فائیو جی نیٹ ورک سرے سے موجو ہی نہیں ہے۔

یورپی کمیشن نے صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر حالیہ دنوں میں ایک بیان جاری کیا کہ یورپی یونین میں فائیو جی نیٹ ورک کی تشکیل عالمی ادارہ صحت کے رہنما اصولوں کے عین مطابق کی گئی ہے لہذا تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانیہ میں 50 فائیو جی بیس اسٹیشنز پر حملے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح نیدرلینڈ میں گیارہ فائیو جی ٹاورز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیلجئیم اور آئرلینڈ میں بھی فائیوجی ٹاورز کو نقصان پہچایا گیا ہے۔ قبرص میں پولیس نے فائیو جی ٹاورز کے قریب مشکوک سرگرمیوں میں ملوث 18 سے زائد افراد کو شامل تفتیش کیا ہے۔ ڈچ حکومت نے حالیہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بہت سی افواہیں سوشل میڈیا سائٹس کی مدد سے لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں اور شیئر ہو رہی ہیں لیکن اس کے مقابلے میں ان ویب سائٹس کا ردعمل نہایت سست ہے۔ ایک طرف تو ان سائٹس پر بعض موضوعات پر بات کی ہی نہیں جاسکتی تو دوسری طرف نہایت خوفناک پروپیگنڈا نہایت آزادی کے ساتھ کرنے کی اجازت ہے۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس کو ایسے وقت میں جب لوگ کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے ان ویب سائٹس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

افواہوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

مشکل حالات میں افواہوں کا جنم لینا کوئی نئی بات نہیں۔ جب سن 1830 میں برطانیہ میں ہیضے کی وبا پھیلی اور لوگ بڑی تعداد میں مرنے لگے تو شہریوں نے ڈاکٹروں پر حملے شروع کر دیے۔ ان دنوں ایک افواہ گردش کر رہی تھی کہ ڈاکٹر تجربات میں استعمال کرنے کے لئے جان بوجھ کر مریضوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ ایسی مشکل صورت حال میں جب سچ اور جھوٹ میں فرق مشکل ہو جائے ہمیں سائنس سے مدد لینی چاہیے اور چیزوں کا تجزیہ سائنسی بنیادوں پر کرنا چاہیے۔ یہاں مشکل صورت حال یہ ہے کہ سب کچھ ان ممالک میں ہو رہا ہے، جن کے بارے میں کل تک ہم یہی سمجھتے تھے کہ وہ تعلیم، شعور اور ترقی میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments