گاؤں میں بدمعاش وڈیرے کا ہونا کیوں ضروری ہے؟


دور حاضر میں ٹیکنالوجی نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، کرونا بھی شاید کسی حد تک اسی ٹیکنالوجی کی سائنس کا جنا ہوا ایک بچہ ہے۔ ایسا کہنا مناسب ہو گا کہ ٹیکنالوجی کا بگڑا ہوا بچہ۔ حالیہ حالات کی وجہ سے باقی دنیا کی طرح میں بھی اپنے گاؤں میں وقت گزار رہا ہوں۔ والد صاحب کے ساتھ بچپن سے ہی اچھی دوستی ہے کہ ہم جب بھی ساتھ ہوں تو رات گپ شپ میں گزر جاتی ہے۔ آج کی گپ شپ کا موضوع تھوڑا الگ تھا۔ گزشتہ کچھ سالوں میں گاؤں کے ماحول میں کافی تبدیلیاں آئی تو اسی حوالے سے ہم باتیں کر رہے تھے۔

”غیرت کا ختم ہو جانا، چھچھورے پن کا عام ہو جانا اور ڈر کا ختم ہو جانا“ ان تمام تبدیلیوں میں شامل تھا۔ کچھ سال پہلے تک گاؤں میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں میری رائے ہمیشہ اچھی ہوا کرتی تھی، مجھے لگتا تھا کہ سادہ روح لوگ بستے ہیں جو غیرت کی چادر اوڑھ کر چلتے ہیں، دوسروں کی مدد کرتے، اور ڈرتے ہیں۔ مگر اب چند واقعات سننے کے بعد اور نئی ’کرونائی‘ نسل کے پیدا ہونے اور ان کے کارناموں کو سننے کے بعد مجھے اپنے گاؤں میں بھی عدم تحفظ محسوس ہونے لگا ہے۔

عورتوں کو تنگ کرنا، گلیوں میں قطاریں بنا کہ کھڑے رہنا، شراب اور چرس سرعام پینا یہ سب اس کرونائی نسل کے لئے عام ہے۔ سب باتوں پر غور کرنے کہ بعد گفتگو کے دوران والد صاحب سے پوچھا کہ ایسا کیوں؟ والد صاحب کا جواب قابل تسکین تھا ”جب گاؤں کے وڈیرے شریف ہوں تو یہی ہوتا ہے، گاؤں کے وڈیرے کا بدمعاش ہونا ضروری ہے“۔ اب یہاں اکثر لوگ بدمعاش کا مطلب سمجھتے ہیں کہ شاید بدمعاش وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں چوبیس گھنٹے بندوق ہو اس کا کام لوگوں کو ظالمانہ طور پر قتل کرنا ہو یا شاید اس سے ملتا جلتا کوئی کردار، مگر والد صاحب کا بدمعاش ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ وڈیرا جس کا ڈر اس قدر ہو کہ کوئی غلط کام کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے اور ان کی مثالیں ہمارے گاؤں میں کافی ملتی ہیں جب وڈیرے کہ پاس ہتھیار نہیں ہوتا تھا مگر اس کا عقل اور تعلقات اس قدر وسیع ہوتے تھے کہ ڈر قائم رہتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments