بغیر انصاف تبدیلی کا نعرہ محض سراب ہے


جس معاشرے میں لاقانونیت ہوگی اس معاشرے میں ہمیشہ کمزور کے ساتھ ظلم ہوگا، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو، اجتماعی سطح پر ہو یا ریاستی سطح پر ہو۔ اسی لئے پاکستان میں عورت، بچے، معذور افراد، یتیم، اقلیتیں، یعنی ہر وہ طبقہ، فرد یا افراد ظلم کا شکار ہیں جو کہ کمزور ہیں۔

جہاں پر قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی وہاں پر ہر کمزور فرد یا گروہ اپنے آپ کو طاقتور گروہ سے منسلک کرنے کی کوشش کر ے گا یا ان کی قبولیت حاصل کرنے کی تگ ودو کرے گا، یا اس کی خواہش رکھے گا، اسی لا اقانونیت کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹا معاشرے کا حصہ اپنے آپ کو طاقتور گروہ سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے، فرد انفرادی سطح پر اپنے سے طاقتور فرد کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کرتا ہے اور افراد اپنے سے طاقتور افراد کے ساتھ گویا یہ ایک پوری زنجیر ہے جہاں پر کڑی سے کڑی جڑی ہوئی ہے۔

مملکت خدادا میں اسی لاقانونیت، انصاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے مختلف جتھے بنے ہوئے ہیں، کیونکہ سب کو پتا ہے کہ جب تک وہ کسی گروہ کسی جتھے کے ساتھ منسلک نہیں ہوگا اس کی بقا مشکل ہے اس لیے ہر فرد کسی نہ کس جتھے سے جڑا ہوا ہے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کل کلاں کو اگر کوئی مشکل پیش آئی تو یہ ہی جتھے یا گُروہ مجھ کو بچائیں گے، میرے پیچھے کھڑیں ہوں گے۔ بالکل جنگل کی طرح، جیسے جانور اپنے اپنے گروہ میں رہتے ہیں کیونکہ اسی گُروہ کے اندر وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

اگر ہم اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو انصاف بالکل ناپید ہے، عدالتوں میں اگر آپ کے پاس پیسہ ہے اور کسی معاشرے کے طاقتور گروہ کی حمایت بھی حاصل ہے تو آپ انصاف خرید بھی لیں گے اور انصاف حاصل بھی کر لیں گے، لیکن اگر آپ غریب ہیں اور آپ کے پیچھے کسی جتھے کی طاقت بھی نہیں ہے تو پھر آپ بغیر کسی جرم کی پاداش میں، کچھ ثابت ہوئے بغیر 19 سال جیل میں کاٹ دیں گے۔

کسی معاشرے کا ڈھانچہ صرف اور صرف انصاف پرقائم ہے، جس معاشرے میں انصاف ناپید ہو جائے اس معاشرے میں افراتفری پھیل جاتی ہے، وہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے، اور پاکستانی معاشرہ اسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، انصاف ہے نہیں جس کی وجہ سے مختلف گروہ بن چکے ہیں اور ہر گروہ اپنی اپنی جگہ پر انتہائی طاقتور ہو چکا ہے، ریاست جب بھی کچھ نافذ کرنا چاہتی ہے اور اگر وہ نفاذ کسی جتھے کے مفادات کے خلاف ہو تو وہ حکومت اور ریاست کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔

اس نا انصافی اور لاقانونیت کی پہلی اینٹ ایوب خان نے ملک میں 1958 میں پہلا مارشل لاء نافذ کر کے رکھی اور پھر معاشرے میں ایسی لاقانونیت کا آغاز ہوا جو کہ آج تک جاری ہے، ایوب خان ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اس ملک میں اس رویے کی بنیاد رکھی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہا، یہ سلسلہ اوپر سے شروع ہوا اور پھر معاشرے کی ہر ہر رگ میں سرایت کر گیا اور پاکستان میں اب ہر سطح پر ایک ہی قانون ہے اور وہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، یہی وجہ ہے کہ فرد سے لے کر افراد تک ہر بندہ اپنے آپ کو طاقتور گروہ سے منسلک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔

پاکستان میں معاشرے کی بنت اور ہیئت اس طرح کی ہوگئی ہے اور معاشرے کی نفسیات اس لا قانونیت کی وجہ سے ایسی بن گئی ہے اور معاشرہ اتنا کرپٹ ہو گیا ہے کہ اگر کسی سرکاری محکمے میں جائز کام بھی کروانا ہو تو پہلے اس محکمے میں کوئی بندہ تلاش کیا جاتا ہے جس سے علیک سلیک ہو اور اگر کوئی بندہ نہ مل سکے تو پھر پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور بسا اوقات دونوں کام کرنے پڑتے ہیں یعنی جان پہچان والا بندہ بھی ڈھونڈنا پڑتا ہے اور رشوت بھی دینی پڑتی ہے اور اگر آپ ان مذکورہ سہولتوں سے محروم ہیں تو پھر آپ کو ان محکموں میں پوری طرح خوار بھی کیا جائے گا اور آپ کی عزت نفس کو مجروح بھی کیا جائے گا، اس لیے پاکستان میں جینے کے لئے ، اپنی بقا کے لئے بندے کو کسی طاقتور فرد اور طاقتور گروہ سے منسلک ہونا ضروری ہے اور ان طاقتوروں کے آگے آداب بجا لانا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔

جب تک عدل نہیں ہوگا معاشرہ تبدیل نہیں ہوگا، جس دن اس ملک میں عدل ہونا شروع ہوگیا اس دن تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا، بغیر عدل کے، بغیر انصاف کے تبدیلی کا خیال محض ایک سراب ہے، ایک خام خیالی ہے۔ عدل کہتے ہیں کہ جس کا جو کام ہے اس سے وہ ہی کام لیا جائے، یعنی جو چیز جس کام کے لئے بنی ہے اسے اسی کام کے لئے استعمال کیا جائے ہتھوڑی سے کیل ٹھونکنے کا کام لیا جائے تو عدل ہے اور اگر اس سے سر پھاڑنے کا کام لیا جائے تو وہ ظلم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments