کورونا کے دنوں میں خفیہ دارو پارٹی



دارو کی تلاش میں امپیریل وائن ایند اسپرٹس پر پہنچا تو وہاں رش لگا ہوا تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں لاک ڈاؤن کے باوجود اس شاپ پر رش تھا۔ لوگ دارو کی خریداری میں مصروف تھے۔ میں بھی دکان کے شیلفز میں جھانکنے اور کوئی نئی برانڈ دیکھنے لگا۔ کراؤن رائل وسکی کبھی نہیں پی تھی اس لئے وہ ڈھونڈنے لگا۔ جب میں شیلف پر پہنچا تو وہاں سے ایک باریش شخص آخری پانچ بوتل سمیٹ چکا تھا۔ حلیے سے وہ مجھے کچھ ہندستانی لگ رہا تھا۔ ۔ ۔ میں نے ان سے اردو میں کہا ”محترم کیا مجھے ایک بوتل مل سکتی ہے؟ “

اس نے میری طرف دیکھے بنا ہی کہا ”آپ پہلے آتے تو ضرور لے سکتے تھے۔ لیکن اب نہیں۔ آپ نے آنے میں دیر کردی ہے“

” محترم مجھے کراؤن رائل کا شیلف ڈھونڈنے میں دیر ہوگئی۔ ۔ ۔ لیکن مجھے صرف ایک ہی بوتل چاہیے۔ “
میری بات سن کر پھر اس نے پہلے کی طرح کہا ”سوری۔ میں یہ لے چکا ہوں۔ “
میں اس کی بات سن کر چپ ہوگیا اور اس کے پیچھے پیچھے کاؤنٹر پر آ گیا۔ اور وہاں موجود شخص سے کراؤن رائل کے بارے میں پوچھنے لگا۔

” اسٹاک میں بس یہی پانچ بوتلیں تھیں جو یہ لے چکے ہیں۔ مزید کوئی نہیں ہے۔ “ سیلزمین نے کہا۔ اور دارو کی بوتلیں پیک کرنے لگا۔

مجھے سیلز مین سے بات کرتا دیکھ کر باریش شخص نے مجھے دیکھا اور دارو پیک کروا کر بل دینے لگا۔ اور میں چپ چاپ شاپ سے باہر نکل آیا۔

میں نے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک دو لوگوں سے قریب میں واقع کسی اور وائن شاپ کے بارے میں پوچھا۔ اور ان کے بتائے ہوئے ایڈریس پر کانٹینینٹل وائن اینڈ لیکوئر پر پہنچا۔ میں جیسے ہی اندر داخل ہوا اور کاؤنٹر سے کراؤن رائل کے بارے میں پوچھنا چاہا تو دیکھا۔ باریش شخص وہاں بھی موجود تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اس نے ایک بھی بوتل نہیں چھوڑی ہوگی۔ میں ان سے مخاطب ہوا ”محترم آپ نے یہاں بھی کراؤن رائل ہی لی ہیں کیا؟ “ اس نے مسکرا کر کہا جی ہاں۔ آپ نے پھر دیر کردی ہے! ”

” میں بہت تیز چلتا آیا ہوں۔ لیکن آپ کیسے جلدی پہنچ گئے، مجھے نہیں معلوم؟ “
انہوں نے یہاں سے دس بوتلیں خریدیں تھیں۔ اپنا سامان پیک کراتے ہوئے مجھ سے گویا ہوئے۔ ”تم کیوں اسی برانڈ کے پیچھے پڑے ہو، کوئی اور پی لو۔ ۔ ۔ سب میں ایک سا ہی دارو ہوتا ہے۔ “ اس نے شرارت بھرے انداز میں کہا۔

” میں نے کبھی کراؤن رائل نہیں پی ہے، آج سوچا تھا کہ رائل دارو پیوں گا، لگتا ڈی سی کی ہر وائن شاپ سے آپ یہ دارو خرید چکے ہیں۔ “

میری باتیں سنتے سنتے اس نے بل ادا کیا اورپھر ہم باہر آگئے۔ میں نے پوچھا ”اتنا دارو۔ خیریت ہے نا۔ ۔ ۔ کورونا وائرس سے لڑنے کی کوئی تیاری کر رہے ہیں آپ؟ “

” بس ایک پارٹی رکھی ہے، اس کے لئے سب کی فرمائش ہے رائل پینے کی تو بس رائل خریدلی ہے! “
” واہ۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے کوئی بڑی پارٹی رکھی ہے؟ “
” ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ایسا ہی سمجھ لو! “
” اچھا ہے چلیں آپ پارٹی انجوائے کریں۔ ۔ کافی دیر ہوگئی ہے۔ ۔ ، اندھیرا ہونے والا ہے۔ میں چلتا ہوں“۔ میں نے انہیں الوداع کیا۔

” کہاں جا رہے ہو۔ ۔ ۔ میرے ساتھ چلو۔ ۔ ۔ تم کو اپنی پارٹی میں لئے چلتا ہوں۔ ۔ ۔ تم نے کبھی رائل پارٹی انجوائے نہیں کی ہوگی۔ کیا یاد کروگے۔ ۔ “

ان کی بات سن کر میری باچھیں کھل گئیں۔ ۔ ”کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ واقعے میں آپ کے ساتھ چلوں۔ “
” ہاں تم میرے ساتھ چلو۔ ۔ ۔ “ اس نے یہ بات کہ کر ایک ٹیکسی کو روکا اور ہم اس میں بیٹھ گئے۔ ۔ ۔
” آپ بھی میسا چوسٹس ایوینیو میں رہتے ہیں؟ “ میں نے کہا۔
” ہاں میں وہیں رہتا ہوں“ اس نے جواب دیا۔
”سوری میں آپ کا نام پوچھنا بھول گیا۔ ۔ ۔ ۔ پلیز اپنا نام بتائیں؟ “
” میرے بہت سارے نام ہیں۔ تم کو کون سا بتاؤں۔ ۔ ۔ ؟ “
” جو آپ کا نام ہو وہ بتائیں؟ “ میں نے کہا۔
” میں ایشور ہوں“ اس نے جواب دیا۔
ٹیکسی آکر بھارتی ایمبیسی کے پاس رکی۔ ہم باہر نکلے۔ ٹیکسی سے اتر کر ایشور گاندھی کے مجسمے کے پاس فٹ پاتھ پر رک گیا۔ مجھے بھی ان کے ساتھ رکنا پڑا۔ ۔ ۔ میں نے کہا ”آپ رک کیوں گئے۔ ۔ ؟ “

” یار بڈھا ہو گیا ہوں، ٹیکسی میں بیٹھنے سے ٹانگ اکڑ گئی تھی۔ اسے سیدھا کر رہا ہوں۔ “
”ایسی حالت ہے اور اوپر سے آپ دارو بھی پی رہے ہو۔ کچھ تو اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ “
میری بات کو انہوں نے ان سنا کردیا۔ ۔ اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے لگے۔ ۔
” پارٹی میں اور کون ہے۔ ۔ ۔ لگتا ہے سارے آپ ہی کی عمر کے ہوں گے ۔ کوئی نوجوان تو ہوگا نہیں۔ اور جتنی شراب خریدی ہے، اس حساب سے کوئی چالیس پچاس لوگ تو ہوں گے ۔ ۔ “ میں نے پوچھا۔

” مختلف عمر کے لوگ ہیں پارٹی میں۔ ۔ ۔ ہاں چالیس پچاس کے قریب ہو جائیں گے۔ لیکن سارے مرد بھی نہیں ہیں! “ ایشور کی بات سن کی میری آنکھوں میں جیسے چمک سی آگئی کہ چلو بڈھوں کے بیچ کچھ تو جوان بھی ہوں گے اور ان میں لڑکیاں بھی ہیں۔ میں من ہی من خوش ہونے لگا۔

میں سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے ایک دروازے پر بیل دی۔ ۔ ۔ ایک بڑا سا محل نما گھر تھا۔ ۔ ۔ بیل بجتے ہی دروازہ کھلا۔ کسی مہاراجہ کے دربار کی طرح دربان دروازہ کھول کر کورنش بجا لایا اور ایک طرف ہوگیا، میں ایشور کے پیچھے پیچھے اندر چلنے گا۔

گھر باہر سے جتنا بڑا تھا اندر سے اتنا ہی نفاست سے سجایا ہوا تھا۔ جیسی کوئی محل۔ ۔ ۔ میری حیرانی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ۔ ایک کمرے سے دوسرے، پھر تیسرے کمرے سے گزر کر ہم ایک بڑے ہال میں آگئے۔ ۔ ۔ ہال میں مجھے ایشور نے روک کر ایک کمرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ”تم اس میں جاکر آرام کرو۔ پارٹی جیسے شروع ہوگی تم کو بلالیں گے۔ ۔ “

مجھے یوں تو پارٹی میں شریک ہونی کی اتنی خوشی نہیں تھی جتنی مہنگی شراب مفت میں پینے کی خوشی تھی۔ میں جس کمرے میں گیا وہ خالی تھا۔ ویسے پورے گھر میں موت کی سی خاموشی تھی۔ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہاں کوئی پارٹی ہے جس میں چالیس پچاس لوگ شریک ہوں گے ۔ مجھے لگا بڈھا سٹھیا گیا ہے۔ جسے بڑھاپے میں پارٹی کا جوش چڑھا ہے۔ میں فارغ بیٹھا تھا، اس لئے الٹے سیدھے خیالات ذہن میں آرہے تھے، میں بیڈ پر لیٹ گیا۔ اسی سوچ میں میری آنکھ لگ گئی۔ ۔ ۔

کسی کے زور سے جھنجھوڑنے پرمیں جاگا۔ جگانے والا کوئی اور نہیں ایشور تھا۔ ۔ میں نے گھڑی میں دیکھا تو رات کے دس بج چکے تھے۔ ۔ ایشور نے کہا ”تم فریش ہوجاؤ الماری میں کپڑے ہیں تم کو جو اچھے لگیں پہن لینا۔ تم تیار ہوکر ہال میں آجاؤ۔ “

وہ یہ کہ کر چلے گئے اور میں الماری کھول کر کپڑے دیکھنے لگا۔ سارے کپڑے میری ہی ناپ کے تھے۔ ایک اچھی سی شوخ بھڑکتے رنگوں والی ٹی شرٹ اور جینز نکالی اور نہانے چلا گیا۔ میں نہا رہا تھا اور باہر ایکو ساؤنڈ کی آواز آرہی تھی۔ جلدی جلدی تیار ہوکر ہال میں پہنچا۔

کیا دیکھتا ہوں، ہال بھرا ہوا ہے۔ سب کے لباس مختلف، کوئی زرق برق کپڑے پہنے ہوئے تو کسی نے پرانے زمانے کے تاج، مکٹ، بازو بند، پہنے ہوئے۔ جیسے میں کوئی فلم دیکھ رہا ہوں جس میں ہندستان، یونان، روم، مصر اور میسوپوٹیمیا کے بادشاہوں کی جھلک دکھ رہی تھی۔ خود ایشور، وشنو کے روپ میں تھا۔ ایک ہاتھ میں چکرا، دوسرے میں شنکھ، تیسرے کنول کا پھول اور چوتھے میں گدا۔ ان کے ایک طرف شو اور دوسری طرف برہما بیٹھا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میری حیرانی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ۔ یہ سب لوگ ایک بڑی سی گول میز کے چارو طرف بیٹھے تھے۔ ۔ ایشور نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے اشارے سے بلایا اور میرا باقی احباب سے تعارف کروایا : ”یہ منو ہے“۔

”میرا نام منوج ہے اور مجھے پیار سے منو کہتے ہیں۔ لیکن میں نے انہیں نام نہیں بتایا تھا۔ وہ میرا نام کیسے جانتے ہیں۔ میری حیرانی اور بڑھ گئی۔

مجھے بازو سے ہلاتے ہوئے ایشور نے کہا کہ ”کہاں کھوئے ہو۔ اب میں ان کا تم سے تعارف کرواتا ہوں۔ ۔ “ یہ لکشمی ہیں میری پتنی۔ اور ان کے ساتھ مہیش جسے دنیا شو کے نام سے جانتی ہے۔ ۔ ۔ ان کے ساتھ پاروتی بیٹھی ہے۔ ۔ سامنے برہما اورسرسوتی ہیں۔ وہ زیوس اور ایتھینا ہیں۔ پھر وہ نام لے کر بتاتے گئے ادھر انو یا منو ہے، یہ عشتار، اِنکی، ازیس، اتو، انات، شالا، مشتری، آہمورا مزدا، متھرا، ایلوہم، ال۔ لات، ال۔ ایلاھ، آمن را، نیفریتی، اوسیریس ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ”وہ پتا نہیں کتنے نام پکارتے گئے۔ ۔ ۔ جو میں بھول گیا۔

”اور بھی مہمان ہیں۔ ۔ ۔ ابھی یہاں آجائیں گے۔ ۔ ۔ “ ایشور نے کہا۔
” آپ لوگ کون ہو۔ بہروپئے۔ ۔ ؟ “ میری بات پر سب ہنسنے لگے۔ ۔
” ہم سب بھگوان، گاڈ، خدا اور دیوتا ہیں۔ اور ہمارے ساتھ دیویاں بھی ہیں۔ ۔ ۔ “
اب جام کا دور چلنے لگا۔ میں بھگوانوں کے پاس بیٹھا تھا۔ ۔ جام پر جام چڑھا رہا تھا۔ ۔ ۔ سب اپنی اپنی باتیں، قصے ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔ ایک دوسرے کے قصے کہانیوں پر خوب ہنسی مذاق چل رہا تھا۔ میں کوئی تین پیگ چڑھا چکا تھا۔ دارو کے ساتھ تکہ بوٹے اور کباب بھی تھے۔ جس سے دارو کا مزا دوبالا ہورہا تھا۔

” مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ تم سب کے سب بھگوان یہاں کر کیا رہے ہو۔ ۔ ۔ دنیا پھر کون چلا رہا ہے۔ ۔ ۔ تم اگر دارو کے نشے میں کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھے تو دنیا کا کیا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ “ میری بات پر ہال میں خاموشی چھا گئی۔

”میں نے کہا تھا نا انسان کو یہاں لاکر آپ نے بڑی غلطی کردی ہے۔ ۔ ۔ “ یہ زیوس تھا جسے مجھے دیکھ کر بہت ہی غصہ آرہا تھا۔

میں پہلے تھوڑا سہم گیا لیکن اگلے ہی پل ترکی بہ ترکی جواب دیا ”مجھے ایشور دعوت دے کر لائے ہیں۔ ۔ بن بلایا مہمان نہیں ہوں۔ ۔ ۔ تمیز سے بات کرو۔ ۔ ۔ تم گاڈ ہوگے اپنے گھر کے۔ میں بھی بھگوان ہوں۔ بھگوان کا مہمان بھی بھگوان ہی ہوتا ہے۔ “

میری بات پر ہال میں بیٹھے دیوتاؤں اور دیویوں میں کھسر پھسر شروع ہوگئی۔ ۔ میرے کانوں تک بس اتنی آواز آئی کہ ”اسے چڑھ گئی ہے“

” ہاں مجھے چڑھ گئی ہے۔ ویسے میں دو ہی پیگ پیتا ہوں، مال مفت کا ہے تو آج چار چڑھا لئے ہیں۔ ۔ ۔ اور بھی پیوں گا۔ ۔ ۔ ۔ کوئی روکے گا مجھے، ہے کسی میں طاقت میں مجھے روکنے کی؟ ۔ “ میری زبان لڑکھڑائی۔

” ہاں ہاں پیو تم۔ ۔ سب تمہارے لئے ہے۔ “ ایشور نے کہا۔
” تم لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہو۔ ۔ ۔ ۔ یار ایشور بتاؤ تو سہی۔ ۔ ۔ ایک تو دنیا میں کورونا نے ایسی کی تیسی کر رکھی ہے اور اوپر سے تم لوگ ایسی مشکل وقت میں دنیا داری کا اہم کام چھوڑ کر یہاں بیٹھے ہو۔ ۔ ۔ یہ وائرس کس بھگوان کا کارنامہ ہے۔ ۔ ۔ اور اس نے اپنے لوگوں کو بچانے کی کوئی تدبیر بھی کی ہے کہ بس یہاں دارو پی رہے ہو۔ ۔ ۔ “ میری بات سن کر سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔

”ہمیں خود پتا نہیں یہ کیا مصیبت ہے۔ ۔ جب ہم کو اس کا پتا نہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ “ یہ ایک چھوٹے قد کا گاڈ تھا جسے میں پہچان نہ سکا۔ ۔ ۔

”اوہ تو آپ بھگوانوں کی بھی اس وائرس کے سامنے نہیں چلتی۔ تبھی تم یہاں اپنا غم بھلانے کے لئے جمع ہوئے۔ “ میں چپ ہوا تو ایک نسوانی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔

یہ نیفریتی تھی۔ ۔ میں نے انہیں مصری فراعون کے لباس سے پہچانا۔ ”لیڈیز کم ود می۔ لیٹس ہیو کٹی پارٹی۔ ۔ “

نیفریتی کی دعوت پر سب دیویاں اور گاڈیسز ان کے ساتھ دوسرے ہال میں چلی گئیں۔ اب میں اور تمام بھگوان اور گاڈ رہ گئے۔ ۔ ۔

” تم لوگ کیوں جمع ہوئے ہو۔ ۔ “ میرا ابھی تک سوال وہی تھا۔
”یار ہم کو کچھ نہیں معلوم یہ کیا ہے، کیسے آیا، کہاں سے آیا۔ جو بیماریاں ہم پھیلاتے تھے ہم کو معلوم تھیں۔ اس کا ہم کو نہیں معلوم جیسے ابھی پلوٹو نے بھی بتایا تھا۔ “

”تو اس کا مطلب ہے دنیا خود بخود چل رہی۔ ۔ ۔ تمہارا اس میں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ۔ ۔ “

”ارے ہاں بابا۔ ۔ ۔ ہماری تو اپنی بیویوں پر نہیں چلتی۔ تم دنیا کی بات کر رہے ہو“ یہ میسوپوٹیمیا کا گاڈ اِن لیل تھا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا میرے پاس آیا اور میرے گلے میں اپنا بازو ڈال کر پھر کہنے لگا۔

”یار ہم کو انسانوں نے ہی یہ بلند مقام دیا ہے، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ “

اتنی میں ناردمنی گلے میں وینا، ایک ہاتھ میں کھڑتال اور دوسرے میں جام تھامے میرے پاس آ نکلے اور کہنے لگے۔

” اے منش۔ ۔ ۔ پہلے انسانوں میں گیان نہیں تھا وہ ہر اس چیز کو پوجتے تھے جس سے انہیں نقصان یا فائدہ ہو۔ پھر ان کو دیکھا دیکھی۔ انہوں نے سب کو بھگوان بنا دیا۔ بھگوان کا مطلب اعلیٰ شخص۔ وہ تم بھی ہو سکتے۔ ۔ ۔ “

” مطلب میں بھگوان ہوں“ میں نے سینا چوڑا کر کے چلا کر کہا۔

” ایشور نے ایک دربان کو بلایا اور اسے کہا کہ“ اس بھگوان کو لے جا کر سلادو۔ ”دربان مجھے آہستہ آہستہ سہارا دے کر اسی کمرے میں لے آیا۔ جہاں میں تیار ہوا تھا۔ وہ مجھے بیڈ پر سلا کر چلا گیا۔ اور میں آنکھیں بند کر کے خود کو بھگوان کے سنگھاسن پر بیٹھا دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔

اتنے میں کسی نے مجھے جگا دیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا سامنے روم میٹ تھا۔ اس نے کہا صبح ہوگئی اب چلو کام پر چلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments