کپتان سے کچھ شکایتیں ضروری ہیں


30 اکتوبر 2011 ایک دس سالہ بچہ جسے سیاست کی ”الف ب“ نہیں معلوم ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر بڑے غور سے ایک لیڈر کی تقریر سن رہا ہے۔ اُس لیڈر کے دِل میں عوام کے لئے درد، کچھ کرنے کا جنون اور اِس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا عزم اُس کی تقریر سے صاف نمایاں تھا۔ اُس دِن اِس کم سِن بچے کی سیاست میں دلچسpی پیدا ہوئی اور اِس جیسے لاکھوں نوجوان اور بچوں کے لئے یہ لیڈر ایک امید کی کرن بن کر سامنا آیا۔ نئی نسل، نیا خون، ایک نیا چہرہ، ایک نئی سوچ، ایک نیا نظریہ اور ایک نیا پاکستان۔

جلسے جلوس اور تقاریر ہوتی رہیں۔ آس، امید، ولولہ، جوش، جذبہ، جنون بڑھتا گیا۔ وقت بھی تیزی سے گزرا اور وہ دِن آگیا جس دِن کا اُس کم سن کو اکتوبر 2011 سے انتظار تھا۔ وہ دن آگیا اُس کے لیڈر نے حلف لیا اور وزیراعظم بن گیا۔ اب وہ کم سن بچہ، نوجوان تھا۔ ایک پرامید نوجوان۔ جو پچھلے چند سالوں سے لیڈر کی تقاریر سن سن کر کچھ زیادہ ہی امیدیں لگا بیٹھا تھا۔ نوجوان نے اپنے لیڈر کو وقت دیا۔ بہت سی باتوں پر دل کو جھوٹی تسلی دی کہ خیر ہے کیونکہ وزیراعظم کہتے ہیں ”گھبرانا نہیں ہے“

یہ کمسن جو اب نوجوان تھا خیالات کے شیش محل تعمیر کرتا رہا اور جذباتی نوجوان اپنے کپتان کی ایک بات نہیں بھولا تھا اور وہ بات تھی کہ ”میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا“ نوجوان خوابِ نگر کی سیر میں مست رہا اِس کا خواب ٹوٹا جب پہلا بڑا کرپشن اسکینڈل آیا۔ کپتان کے درینہ دوست، پرانے ساتھی اور سابق وزیرِ صحت کی کرپشن کی کہانی بے نقاب ہوئی کپتان نے لوگوں کے دباؤ پر وزارت سے تو ہٹایا لیکن پارٹی کا دوسرا سب سے اہم جنرل سیکرٹری کا عہدہ شاید انعام کے طور پر اِن کے سپرد کیا یاد رہے کہ پارٹی کا نام تحریکِ ”انصاف“ ہے۔ نہ تو کوئی انکوئری ہوئی نہ ہی کوئی سزا دی گئی۔ نیب جو مخالفین کے خلاف تو بڑا متحرک ہے لیکن اِس بار اُس کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی۔

کپتان مخالفین کے خلاف تو چُھریاں چاقو تیز کرتے رہے لیکن اپنی کابینہ اور وزرا کو کچھ نہ کہا۔ کیا چراغ تلے اندھیرا تھا یا کپتان بلیک میل ہوگئے لیکن وہ تو کہتے تھے ”مجھے کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا“۔

نوجوان یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کپتان کے ایم۔ این۔ اے اور ایم۔ پے۔ اے اپنے اپنے حلقوں میں اُسی طرح متحرک تھے جیسے پچھلی حکومت کے عوامی نمائندے متحرک تھے۔ چاہے وہ کسی غریب کمزور شریف شہری کی کوٹھی ہو یا مکان یا خالی پلاٹ، قبضہ مافیا کی نظر سے بچ نیہں سکتا۔ عوام اپنے ہی منتخب کیے ہوے نمائندوں کا حقیقی چہرہ دیکھ کر ڈر گئے ہیں۔ پٹوار خانے میں اُس ہی طرح کام چل رہا ہے بلکہ اب زیادہ تیزی سے ہو دہاُ ہے بالکل اُسی طرح ماہانہ اور روزانہ کی بنیادوں پر پٹواریوں سے پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں کپتان کی پارٹی کے اکثر منتخب عوامی نمائندے کرپشن اور بد عنوانی کی نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔

نوجوان یہ سب دیکھ کر مایوس ہوا خواب میں جو شیش محل دیکھتا تھا اُسے اُس شیش محل میں ڈاکو نظر آرہے تھے وہی پہلے والے ڈاکو بس فرق یہ تھا کہ بادشاہ مختلف تھا جو ڈاکوؤں اور چوروں کی چوری اور ڈکیتی پکڑ کر انھیں سزا دیتا تھا۔ محل کے ایک حصے سے نکال کر اُسی محل کے دوسرے حصے میں بھیج دیتا تھا۔ نوجوان بس دیکھ ہی رہا تھا کہ کپتان نے چینی اسکینڈل کی رپورٹ شائع کروا دی اورکہا کہ تفصیلی رپورٹ آنے کے بعد سخت فیصلے کروں گا نوجوان کو پرانا اپوزیشن والا کپتان یاد آگیا نوجوان بیک وقت خوش بھی ہوا اور مایوس بھی کیا پتا اسے یہ ڈر ہو کہ کہیں اس کیس کا نتیجہ بھی عامر کیانی والے کیس کی طرح بالکل صفر نہ ہو۔ وہ بھی پرانے ساتھی تھے لیکن اِس بار جو رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں یہ صاحب تو ”یارِ غار“ مانے جاتے ہیں۔

وہ کم سن بچہ میں تھا، وہ نوجوان میں ہوں۔ میرے کپتان کی نیت اور محب الوطنی پر مجھے قطعاً کوئی شک نہیں۔ وہ لالچی، بے ایمان، نوسرباز نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کپتان پاکستان کی تاریخ کا ایماندار ترین وزیراعظم ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ بھی کہا جائے کہ ہاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ نا اہل، بے ایمان، نالائق اور کرپٹ ٹیم میرے کپتان کی ہے تو غلط نہ ہوگا۔

میرے پیارے کپتان اگر یہی کچھ ہونا تھا تو خواب کیوں دکھائے؟ امید کیوں دلائی؟ کیوں بندھے ہوے ہیں آپ کے ہاتھ؟ کیوں نہیں فارغ کرتے بدکاروں، بے ایمانوں، نا اہلوں کو؟ میرا مشورہ ہے کہ اِن میں تین چار لوگوں کو فارغ کرکے عبرت کا نشان بنائیں۔

یہ نوجوان جب خواب سے بیدار ہوا اور آنکھوں سے جوش، ولولہ اور جذبات کی پٹی اتاری تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا اِسے فیض کا شعر یاد آیا جو انھوں نے پاکستان بننے کے بعد کہا، اتفاق دیکھئے نیا پاکستان بننے کے بعد بھی یہ شعر ویسی ہی اہمیت رکھتا ہے۔ فیض کہتے ہیں،

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments