جس جان گزرے وہ جانے


آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس کے لئے واحد مصروفیت سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے۔ تو ان وقتوں میں جو بھی مسئلہ سوشل میڈیا پر ذرا سا نمایاں ہو جائے۔ اس پر بہت تیزی سے راے دینے والوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ آج یا عہد لاک ڈاؤن سے نہیں بلکہ شروع سے ہی ہمارے معاشرے میں کسی بھی سماجی مسئلہ پر جو عوامی راے بنتی رہی ہے اس میں سوشل کلاس کا فرق ہمیشہ سے رہا ہے۔ عام طور پر مختلف سماجی پس منظر رکھنے والے لوگوں کی رائے میں فرق تو ہوتا ہے بہر حال ابھی میں سوشل میڈیا پرحالیہ ٹرینڈ ”فیصل آباد“ پولیس مقابلہ کے حوالے سے کچھ بات کرون گا۔

آج سے چند دن قبل فیصل آباد شہر میں ایک پولیس مقابلہ میں کچھ ملزمان مارے گئے۔ ان پر کسی کمسن سے زیادتی کا الزام تھا۔ جیسا کہ عام رواج ہے کہ اس واقعہ کے بعد ایک طرف تو فیصل آباد کے موجودہ پولیس چیف کی تصویر کے ساتھ اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

یہ سوال اپنی جگہ ہے کے کیا ڈی آئی جی سطح کا افسر کیا موقع پر موجود تھا؟ لیکن بہر حال میں ابھی ایک خاص واقعہ سے زیادہ پنجاب میں پولیس مقابلہ کے روز مرہ زندگی پر اثرات کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔

پاکستان میں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے ایک دردناک تاریخ ہے۔ ماضی قریب میں قصور میں سامنے آنے والے واقعہ نے جس میں بچہ کو قتل کرکے لاش پھینک دی گی تھی نے پوری قوم کو صدمے میں ڈال دیا تھا۔ اس وقت کے فعال وزیر اعلی قصور موقع پر گئے اور پولیس نے جدید آلات وٹیکنالوجی کی مدد سے اس بدبخت کو اس کے انجام تک پہنچایا۔

اس واقعہ نے چونکہ میڈیا اور معاشرے کے اجتماعی ضمیر پر اثر ڈالا تھا۔ اس لئے اس کیس میں ملزم کو سزا ہو گئی۔ لیکن عام تاثر یہ ہے کہ چند مسائل کے علاوہ میڈیا جن ہای لائٹ نہ کرے عام طور پر قانونی نظام میں موجود سست روی کی وجہ سے کسی بھی ملزم کو سزا دلانا نا ممکن ہے۔

پنجاب میں گذ شتہ ربع صدی میں پولیس مقابلہ کا جو تصورقائم ہوا اور اس کی تاریخ اگر دیکھاجائے تو ماضی میں جب بھی کسی ضلع میں ایسا افسر آیا جس کے بارے میں مشہور ہو کے یہ فوری اور با موقع انصاف پریقین نہیں بلکہ یقین محکم رکھتا ہے۔ اس ضلع میں خاص طور پر ڈاکہ جو کے نہایت ظلم میں 95 فیصد کمی آئی ہے۔ جس کے وجہ سے غریب کے زندگی میں سکون آیا۔ باقی تو بڑے شیروں کی Gated Town میں رہنے والے دانشوروں کو یقینا یہ سمجھنا نا ممکن ہے کہ جب کسی کے گھر آدھی رات کو آکر سب لوٹ لیتے ہیں تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ کیوں کہ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ جس جان گزرے وہ جانے۔

اب اسی سب میں کرنے کا کام یہ ہے کہ اس معاشرہ میں جو بھی دانشور اور ماہرین قانون موجود ہیں وہ سب مل کر معاشرہ میں جرائم کے حوالے سے موجودہ حالات کے مطابق کچھ پالیسی تیار کریں۔ ورنہ تو سوشل میڈیا پر آج ایک تو کل دوسرا مسئلہ آ ہی جاتا ہے۔ لیکن معاشرہ میں جرائم کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر کل بھی موجود تھا اور آج بھی ہے۔ لیکن اس کا حاضر صورتحال کے مطابق حل کیا ہے۔ فوری اور با موقع انصاف یا عدالت میں طویل مقدمہ۔ اس سوال پر ایک ایسی قومی بحث کی ضرورت ہے جس میں صرف اہلیت رکھنے والی آوازیں ہوں نہ کہ صرف بحث براے بحث۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments